تحریر: مظہر عباس۔۔
ایک زمانہ تھا جب سیاسی قیدیوں کو بین الاقوامی ادارہ ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ ’ضمیر کا قیدی‘ کا ٹائٹل دیا کرتا تھا کیونکہ گرفتاری دینے والا یا گرفتار ہونیوالا کسی سیاسی نظریہ کی خاطر اپنا آج قربان کرتا تھا کسی بہتر کل کیلئے، وہ ’غدار‘ کہلاتا تو وہ اسے اپنے لئے ’طوق نہیں تمغہ‘ تصور کرتا تھا۔ ہتھکڑی کو اپنا زیور اور جیل کو دوسرا گھر تصور کرتا اسی لئے کسی نے 20 تو کسی نے 25سال گزارے وہ بھی ’بی‘ اور ’سی‘ کلاس میں۔ جیلوں میں رہ کر کتابیں پڑھتے اور لکھتے تھے۔ ان میں سے بیشتر نے قید و بند کی صعوبتیں ہمت اور بہادری سے قیدیوں کے لباس پہن کر نمبر لگوا کربرداشت کیں، کسی نے ہنر سیکھا تو کسی نے چکی کاٹی ،صرف فوجی حکومتوں میں نہیں سویلین ادوار میں بھی۔ آج 76سال بعد بھی 1857ء کے وہ قوانین نافذ ہیں جو انگریزنے تحریک آزادی کو کچلنےکیلئے بنائے تھے۔
’’خیر بات ہو رہی تھی سیاسی قیدیوں کی اگر میں غلط ہوں تو معذرت کسی ایک سیاسی جماعت نے خود اس کے کارکنوں پر کیا گزری کیسے جیل کاٹی قید و بند، شاہی قلعہ، پھانسی اور جیلوں کی سختی اور مزیدار واقعات قلم بند کئے۔ کوئی کتاب ہی لکھ ڈالتے۔ مگر جہاں ’تمغہ جمہوریت‘ صعوبتیں سہنے والوں کو نہ دیا جائے وہاں جمہوریت کی وہی شکل نظر آئے گی جو نظر آ رہی ہے۔ ہمارے اپنے تین قریبی رشتہ داروں نے جیلیں کاٹی ہیں قیام پاکستان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، اپنے بائیں بازو کے نظریات پر اور تینوں انتہائی پڑھے لکھے ادیب اور پروفیسر تھے۔ سعید محمد مہدی، پروفیسر نصیر اور پروفیسر جمال نقوی۔ ایک بار میں نے کمیونسٹ لیڈر جام ساقی سے پوچھا، جام تم برسوں سے جیل میں ہو، شاہی قلعہ بھی دیکھ لیا، بدترین ٹارچر بھی پھر بھی اتنے مطمئن کیوں نظر آتے ہو۔ ہنس کر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر ہتھکڑی میرے کانوں پر لگاتے ہوئے بولا، ’’اس لئے کہ میں چھوٹی جیل میں ہوں اور تم لوگ بڑی جیل میں۔ آزاد ہو کر بھی قیدی لگتے ہو۔‘‘کمیونسٹوں کے علاوہ جن جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں نے طویل جیلیں کاٹی ہیں ان میں سرخ پوش تحریک، خاکسار تحریک، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی تحریک، سابقہ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علما ئےاسلام، تحریک استقلال، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (نواز)، جئے سندھ، پشتون خوا، ملی عوامی پارٹی، بلوچستان، سندھ اور کے پی کی قوم پرست جماعتوں کے لوگ۔ ظاہر ہے تحریک ایوب خان کے خلاف ہو یا یحییٰ، بھٹو ، ضیاءکے خلاف، مشرف کا دورہو یا مسلم لیگ اور تحریک انصاف کا ،قوانین وہی رہے بس ادوار بدلتے رہے۔ہماری ریاست کا بھی عجب تماشا ہے غداری کی تعریف وہی رہتی ہے بس کردار بدل جاتے ہیں۔ رہ گئی بات قانون کی حکمرانی کی تو جو انصاف کے ترازو کا جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا بوجھ ایک پلڑے میں ڈال کر اس کا جو توازن بگاڑا وہ آج تک اپنا توازن بحال نہیں کر پایا ورنہ شاید اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی حکمرانوں کا قانون نہیں عام عدالتوں کا ہی اتنا خوف ہوتا کہ لوگ فوجی عدالتوں کی بات ہی نہ کرتے۔
کہتے ہیں جیلوں کی دوستی بڑی پائیدار اور جاندار ہوتی ہے نظریاتی اختلافات کے باوجود۔ ذرا غور کریں فیض احمد فیض اور مولانا مودودی کی ایک ہی جیل میں شہری آزادیوں کیلئےمشترکہ جدوجہد مگر اختلاف برقرار رہا۔ اب مجھے نہیں پتا کہ کپتان جیل جانے سے گھبرا رہے ہیں یا ریاست انہیں جیل میں ڈالنے سے کترا رہی ہے۔ 9؍مئی کو وہ گرفتار ہی تو ہوئے تھے اتنا طوفان برپا کرنے کی ضرورت کیا تھی اور وہ بھی براہ راست ریاستی اداروں کے خلاف! دراصل پچھلے 14ماہ کی پوری تحریک کا خلاصہ صرف اپنے آپ کو نقصان کے سوا کچھ نہیں جو لوگ ان کو مسلسل گمراہ کر رہے تھے اور پاکستان کو ترکی اور مصر سمجھ رہے تھے وہ پہلے گرفتاری سے بھاگے پھر پارٹی سے ۔کچھ نے جماعتیں بدل لیں کچھ نے سیاست سے توبہ کرلی۔ اب خان صاحب ہیں اور ان کے وہ ’ٹائیگر‘ جو شاید انتظار کر رہے ہیں اچھے وقتوں کا، یہ جانے بغیر کہ جب اچھا وقت آتا ہے تو تحریک کا ساتھ چھوڑنے والے ہی ویگن میں سوار ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے ان ساتھیوں سے پوچھ لیں جنہوں نے جیلیں کاٹیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔گرفتاری سے بچنے کیلئے سیاسی لوگ بھاگتے نہیں ، روتے نہیں ، ڈرتے نہیں، البتہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ آنسو آنا قدرتی عمل ہے مگر ’معافی نامہ‘ کسی مصلحت کے تحت بھی سیاسی کارکن کی خودکشی کے مترادف ہے۔ یاد صرف اتنا رہنا چاہئے کہ جو آج ہوا وہ کل نہ ہو۔ قوانین کو تو کیا بہتر بنائیں گے اب تو سیاست دان اور جماعتیں اپنا سیاسی اسپیس بھی کھوتی جا رہی ہیں بس جمہوریت کو ’ATM‘ سمجھ لیا ،اس کا استعمال کرو اور پھر بھول جائو کہ جمہوریت ہوتی کیا ہے، بہترین انتقام صرف بدترین آمروں کیلئے ہی کیوں اپنے سیاسی مخالفین کیلئے کیوں نہیں۔ دوسری طرف اپنے ارد گرد چور ڈاکوئوں کو بٹھا کر دوسروں کو چور ڈاکو کہنے سے اقتدار کی چند گھڑیاں تو نصیب ہو سکتی ہیں لیکن اس سےاقتدار بھی کمزور پڑتا ہے اور اقدار بھی۔لہٰذا جیل جانے سے گھبرانا نہیں چاہئے وہ تو سیاست میں نکھار لاتی ہے۔ جیلر بھی خاص خیال رکھتے ہیں۔ بقول ایک جیلر کے ’پتا نہیں کب دوبارہ اقتدار مل جائے۔ صاحب، ہم ملازم لوگ ہیں وقت کی سرکار کے، پر ہمیں پتا ہے اقتدار کی جماعتوں والے لوگ آج اپوزیشن میں ہیں تو کل اقتدار میں بھی آ سکتے ہیں۔ وہ تو نظریاتی سیاست والے لوگ ہوتے تھے جو جان دے دیا کرتے تھے۔ قیدیوں والا لباس بھی پہنتے اور مشقت بھی کرتےتھے۔‘‘اس کی باتوں میں درد بھی نظر آیا اور کئی چھپے راز بھی۔ کچھ بتائوں، ’’دیکھیں سر، اگر اوپر سے حکم آجائے تو دنوں کا کیا ہفتوں سورج کی کرن نظر نہیں آتی اس کو ۔ورنہ ہر قسم کی خواہش کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ وی آئی پی لوگ جیل میں کم اسپتال میں زیادہ رہتے ہیں بیماری آنے میں جلدی اور جانے میں دیر لگاتی ہے‘‘ ۔اس کی باتوں سے یاد آیا بھٹو صاحب کوٹ لکھپت جیل میں تھے، ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں اخبار تک نہیں دیئے جاتےتھے۔ ایک دن ان کے وکیل یحییٰ بختیار ملنے آئے تو بھٹو نے پوچھا خبریں کیا ہیں اخبار نہیں مل رہے۔ وہ بولے خبریں یہ ہیں کہ آپ کو جیل میں مشروبِ مغرب خوب مل رہا ہے۔ انہوں نے مسکرا کر جیلر کی طرف دیکھ کر کہا، ’’اور یہ پھر بھی مجھے نہیں دیتا۔‘‘
ایک زمانہ تھا جب کرمنل اور سیاسی قیدیوں کا واضح فرق نظر آتا تھا اب اللہ کا شکر ہے وہ فرق آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔‘‘ وی آئی پی کلچر یہاں بھی آ گیا ہے، گھر سے کھانا آتا ہے، اسپتال میں دن گزرتے ہیں۔ ماضی میں سیاسی قیدی بھوک ہڑتال کرتے تھے۔ مطالبات اور شکایات سیاسی ہوتی تھیں۔ جیل میں ضیاء دور میں ترانہ مشہور تھا’’12سال سوا سو کوڑے، فوجی جنتا کے دن تھوڑے‘‘ اب تو جمہوریت ہے۔ کیا واقعی؟۔(بشکریہ جنگ)