kia sahafion ko fake news ki ijazat milni chahiye?

کیا صحافیوں کو فیک نیوزکی اجازت ملنی چاہیئے

تحریر: سید بدرسعید۔۔

پیکا ایکٹ اور پہلے سے موجود قانون صحافی پیکا ایکٹ کے خلاف کیوں ؟کیا کسی کو بھی “فیک نیوز ”  چلانے کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟

تحقیقاتی صحافی خبر کیسے کنفرم کرتے ہیں ؟

آزادی صحافت اور بدمعاشی صحافت میں فرق ہے ۔ میری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے آگے آپ کے حقوق مجروح ہونے لگیں ۔صحافت کا اصول ہے کہ آپ صحافتی اخلاقیات کا پاس رکھتے ہیں ۔ کوئی بھی اچھا صحافی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی خبر غلط ثابت ہو ۔اس لیے خاص طور پر انویسٹی گیٹیو جرنلزم میں کاونٹر چیک کی اصطلاح موجود ہے ۔ روٹین کی جرنلزم میں بھی خبر یا اطلاع کو  کاونٹر چیک کیا جاتا ہے ۔

کاونٹر چیک یہ ہے کہ صحافی سورس سے ملنے والی اطلاع کو ایک سے زیادہ جگہ سے کنفرم کرتا ہے ۔ ہر جگہ سے وہ اطلاع کنفرم ہونے پر ہی اسے خبر کا درجہ دیتا ہے  ۔ اس خبر کو مختلف اینگلز سے جانچتا ہے ۔ اسی طرح خبر حساس ہو تو اس سے متعلقہ شواہد اپنے پاس محفوظ کرتا ہے ،کوئی دستاویز ہو  تو کم از کم اس کی فوٹو کاپی اپنے پاس رکھتا ہے ۔اچھے صحافی کے پاس دس خبریں ہو تو ان میں سے دو تین کو ہی رپورٹڈ خبر کا درجہ ملتا ہے ،باقی اطلاعات اس کے دراز میں اس وقت تک گلتی سڑتی رہتی ہیں جب تک وہ مکمل کنفرم نہ ہو جائیں ۔

اگر کوئی خبر غلط ہو یا خبر کو چیلنج کر دیا جائے  تو عدالت یا متعلقہ اتھارٹی صحافی کو طلب کر کےخبر کا ثبوت مانگتی ہے ۔صحافی پابند ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ اتھارٹی کو اپنی خبر کا ثبوت مہیا کرے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے  غلط خبر اور ہتھک عزت سمیت مختلف دفعات کے تحت سزا سنائی جا سکتی ہے ۔اس ساری احتیاط کے باوجود یہ ممکن ہے کہ کسی صحافی کی خبر باونس ہو جائے اور اسے دو تین سورس سے غلط معلومات ہی ملی ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں ایکا کر کے کسی صحافی کو مس گائیڈ کیا جائے ۔ ایسی صورت میں صحافی اس کی ذمہداری قبول کرتا ہے ،ادارہ (میڈیا ہاوس) اس صحافی کے خلاف ایکشن لیتا ہے اور ادارے کی جانب سے  باقاعدہ  تردید اور معذرت نامہ جاری کیا جاتا ہے ۔ خبر باونس ہونے والے صحافی کی مارکیٹ ساکھ بھی خراب ہوتی ہے اور صحافی کمیونٹی میں اسے ناکام سمجھا جانے لگتا ہے ۔

پرنٹ میڈیا کے دور میں ان چیزوں کی بہت پابندی تھی ،الیکٹرانک میڈیا آیا تو بریکنگ نیوز کی دوڑ میں نوجوان صحافیوں کی جانب سے کچھ قباحتیں بھی سامنے آئیں لیکن سینئر اور سمجھدار صحافیوں نے کاونٹر چیک سمیت دیگر اصولوں کی پاسداری کی ۔ بدقسمتی سے ڈیجیٹل میڈیا نے ان گنت ان ٹرینڈ کمیونیکیٹرز متعارف کروا دیے ۔ یوٹیوب سمیت دیگر فورم پر ایسی رپورٹنگ ہونے لگی جس میں سورس “گوگل بابا” کے سوا کوئی نہیں ہوتا ۔ یہاں سے مسائل بڑھے۔۔حکومت سمجھتی ہے کہ اس طوفان بدتمیزی کو روکنے کے لیے پیکا ایکٹ ضروری ہے ۔صحافی کمیونٹی یہ سمجھتی ہے کہ پیکا قانون ظلم ہے کیونکہ تمام تر احتیاط کے باوجود کوئی خبر باونس ہو جائے تو اس کے لیے مکمل عدالتی طریقہ کار موجود ہے ۔متاثرہ شخص کیس کر سکتا ہے اور اسے انصاف ملتا ہے لیکن کسی سورس کی وجہ سے ایک شخص کو بلا ضمانت 5 سال کے لیے قید کر دینے کا مطلب اس کی ہوری زندگی ،کیریئر تباہ کر دینا ہے۔ اس سے خوف کی فضا قائم ہو گی اور کنفرم خبریں بھی رکنے لگیں گی ۔

صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ خوف کا یہ ماحول انویسٹی گیٹیو جرنلزم کو مکمل طور پر ختم کر دے گا اور صحافت محض پی آر او نیوز تک محدود ہو جائے گی ۔میرے خیال میں خبر جمہوری معاشرے کا حسن ہے ۔خبر نہیں رکنی  چاہیے ورنہ ہر حکومت اسی قانون کا سہارا لے کر “خبر”پر پابندی لگا دے گی اور معاشرے میں انتشار یا بغاوت جنم لے گی ۔ ہم “آواز” کو بہت دیر تک نہیں دبا سکتے ورنہ وہ  آواز “چیخ ” بن جائے گی ۔اس کی بجائے پہلے سے موجود قوانین کو سخت کیا جا سکتا ہے ۔ ڈیجیٹل میڈیا کے لیے قوانین بنائے جا سکتے ہیں ۔ ڈیجیٹل میڈیا یوزر کے لیے تربیت گاہیں بنائی جا سکتی ہیں ۔ معمولی سرکاری فیس پر یہاں کمیونیکیشن ٹولز ، قوانین اور اخلاقیات کی تربیت مہیا کی جا سکتی ہے ۔

ڈیجیٹل میڈیا پر بہت سے لوگوں کو کچھ پتا ہی نہیں ہے ۔ کیمرہ مائیک اور صحافت میں بہت فرق ہے ۔لوگوں کو روکنے کی بجائے انہیں تربیت دیں ، لائسنس متعارف کروائیں جسےٹریننگ سے مشروط کیا جائے اس کے باوجود کوئی باونس خبر دے تو ویسے ہی کاروائی کریں جیسے صحافیوں کے خلاف ہوتی ہے لیکن ان ٹرینڈ ہجوم کی وجہ سے صحافیوں کوخوف کی فضا میں دھکیلنے سے مسائل بڑھیں گے ۔حکومت یہ کر سکتی ہے کہ “خبر” سے متاثرہ شخص کو انصاف دلانے کے لیے مزید اقدامات کرے ۔ ہر متاثرہ شخص کا مقدمہ ریاست مفت  لڑے اور اگر متاثرہ شخص درست ہو تو  متعلقہ صحافی کے خلاف مروجہ مکمل قانونی کاروائی کی جائے ۔اگر صحافی درست نکلے تو “متاثرہ” شخص کو ہرجانہ کیا جائے اور وہ رقم اس صحافی کو ادا کی جائے جس کی خبر پر کیس کر کے اسے ذہنی اذیت دی گئی ۔

ایک بیلنس طریقہ کار پہلے سے موجود ہے جسے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے ۔ایسے کیسز کو حل کرنے کا ایک ٹائم فریم مقرر کیا جا سکتا ہے ۔اس میں مزید اصلاحات لائی جا سکتی ہیں ۔ اصلاح اور جبر میں فرق ہے بالکل ویسے ہی جیسے “آزادی صحافت” اور “بدمعاشی صحافت ” میں فرق ہے (سید بدر سعید)

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں