kia sahafion ke tahaffuz ka qanoon tahaffuz dega

کیا صحافیوں کے تحفظ کا قانون تحفط دے گا؟؟

خصوصی رپورٹ۔۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کی قومی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں دو ایسے بل پیش کیے گئے جن کا مطالبہ پاکستان کے صحافی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔یہ بل پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا عہدیداروں کی حفاظت سے متعلق ہیں۔ لیکن صحافیوں کے تحفظ کے لیے مجوزہ قانون کو قومی اور صوبائی سطح پر متعارف ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یوٹیوب ویلاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ زخمی ہو گئے۔تاہم اسد علی طور ایسے حملوں کا نشانہ بننے والے پہلے صحافی نہیں ہیں۔ پاکستان میں آئے روز صحافیوں کو زد و کوب کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے یہاں تک کے قتل کر دینے کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

کمیٹی فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹ کے مطابق سنہ 1992 سے 2019 تک پاکستان میں 61 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافت کا پیشہ اس لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ صحافیوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں اور ایسے مقدمات پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صحافیوں کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں، دہشتگرد تنظیموں اور عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

صحافیوں کی حفاظت کا مجوزہ قانون کیا کہتا ہے ؟

صحافیوں کی حفاظت کا بل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیرین مزاری کی جانب سے صحافیوں اور ماہر قانون سے مشاورت کے بعد ترتیب دیا گیا ہے۔ جبکہ اسی قسم کا ایک اور بل 23 مئی 2021 کو سندھ حکومت کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں بھی متعارف کروایا گیا ہے۔

ان دونوں ہی بلوں میں صحافیوں کو اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر نہ کرنے سے متعلق استثنیٰ حاصل ہے اور آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بل کے مطابق حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دہشتگردی یا قومی سلامتی سے متعلق موجودہ یا مستقبل کا کوئی بھی قانون صحافیوں کے کام میں دشواری پیدا کرنے کے لیے اور ان کو خاموش کروانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اس مجوزہ قانون کے تحت ایک کمیشن بھی قائم کیا جائے گا جسے سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ہر صوبے سے ایک یعنی کُل چار نمائندے شامل ہوں گے۔ ایک نمائندہ نیشنل کا جبکہ ایک نمائندہ ہر صوبائی پریس کلب سے شامل ہو گا۔ جبکہ وزارت اطلاعات اور انسانی حقوق کا بھی ایک ایک نمائندہ اس کمیشن کا حصہ ہو گا۔ اس کمیشن کا چیئرمین ایک ریٹائرڈ جج یا قانون اور انسانی حقوق میں 20 سال کا تجربہ رکھنے والا شخص ہو گا۔

اگر کسی صحافی کو ہراساں کیے جانے یا تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعے پیش آتا ہے تو اس واقعے کی تفصیلات 14 روز کے اندر کمیشن کے سامنے پیش کی جائیں گی اور کمیشن 14 روز میں اس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے اور کسی بھی ادارے سے اس کے متعلق دستاویزات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس مجوزہ قانون میں میڈیا مالکان پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ ہر صحافی کو نوکری پر رکھنے کے ایک سال کے اندر انھیں ذاتی حفاظت سے متعلق تربیت دی جائے۔

کیا صحافیوں کی حفاظت کا مجوزہ قانون ان کو تحفظ فراہم کر پائے گا؟

اپریل 2014 میں صحافی حامد میر پر کراچی میں ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کا حکم دیا۔حامد میر کہتے ہیں کہ اس کمیشن کے سامنے نہ ہی اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر الاسلام پیش ہوئے جن پر حامد میر نے اس حملے کا الزام عائد کیا تھا اور نہ ہی انھیں آج تک اس کمیشن کی رپورٹ ملی۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل بغیر کسی ترمیم کے منظور ہو جاتا ہے تو شاید ملک کے صحافیوں کی ان کی تحفظ سے متعلق کچھ امید قائم ہو جائے لیکن انھیں خدشہ ہے کہ کچھ حلقے اس بل کو اپنی اصل صورت میں پاس نہیں ہونے دیں گے۔

اس بل میں جو کمیشن تجویز کیا گیا ہے اس میں فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اس کمیشن میں صحافیوں کی اکثریت کو کم کر دیا جائے گا۔ اگر صحافی اکثریت میں ہوں گے تو وہ کوشش کر کے کیس کو پائے تکمیل تک پہنچا دیں گے اس لیے شاید کچھ لوگ اس کمیشن میں صحافیوں کو اقلیت میں بدلنا چاہیں۔حامد میر کا کہنا ہے قومی اسمبلی میں پیش ہونے والا بل سندھ اسمبلی میں پیش ہونے والے بل سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ سندھ اسمبلی کے بل میں جو کمیشن تجویز کیا گیا ہے اس میں صحافی تنظیم، بار کونسل وغیرہ کے عہدیدار بھی شامل کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے کمیشن میں ورکنگ جرنلسٹ کی اکثریت نہیں ہے۔

تاہم صحافی مظہر عباس اس سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق سندھ اسمبلی میں پیش ہونے والا قانون قومی اسمبلی کے بل سے اس لیے بہتر ہے کیونکہ اس میں کمیشن کو سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار ہے۔ جبکہ کمیشن میں دیگر تنظیموں کے نمائندوں کی شمولیت اس کو مزید تقویت دے گی۔مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’ہو سکتا ہے کہ اس قانون کے بننے سے صحافیوں کے خلاف تشدد ختم نہ ہو لیکن اس کو کرنے والوں کی شاید نشاندہی ہو سکے۔‘

حامد میر اور مظہر عباس دونوں ہی کے مطابق ان قوانین کا قومی اور صوبائی سطح پر پیش ہونا ایک اچھا اقدام اور اہم پیش رفت ہے جس سے صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔لیکن اسد علی طور جنھیں گذشتہ روز اسلام آباد میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور صحافی بلال فاروقی جنھیں گذشتہ سال فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اس قانون سے زیادہ پر امید نہیں۔اسد طور کا کہنا ہے کہ اس بل کے متعارف ہونے کے چند دن بعد ہی انھیں اس طرح تشدد کا نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ جو لوگ صحافیوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہیں انھیں ان قوانین کی کوئی قدر نہیں اور یہی پیغام وہ حکومت کو دینا چاہتے تھے جس کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا گیا۔

اس بل میں صحافیوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے لیکن صحافیوں کو تو بڑا خطرہ ہی ریاستی اداروں سے ہے۔ تو کیا حکومت صحافیوں کو ریاستی اداروں کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی جن اداروں کا کام یہ تحفظ فراہم کرنا ہے؟بلال فاروقی کا کہنا ہے کہ حکومت شہریوں کے تحفظ کے لیے یہ قوانین بناتی ہے اور پھر ان قوانین ہی کو صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

میرے خلاف ایف آئی آر درج کروانے والا کبھی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا لیکن آج تک اس ایف آئی آر کو ختم نہیں کیا گیا۔ اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کس کے حکم پر کیا گیا۔ تو اس بل سے کچھ فرق نہیں پڑتا جس کی ایک فون کال پر یہ سب ہو رہا ہے وہ ہوتا رہے گا۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔

journalist pro

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں