تحریر: عامر خاکوانی۔۔
اس بات جو کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ، مگر سوشل میڈیا پر ہر کچھ عرصے بعد نئے لوگ وارد ہوجاتے ہیں، بہت سے نئے فالورز ایسے بھی ہیں جنہوں نے پچھلی چیزیں نہیں پڑھ رکھیں۔ اس نکتہ کو پھر سے لکھتا ہوں۔اکثر سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی پارٹی پالیسی یا لیڈر پر تنقید کرنے والے صحافی یا تجزیہ کار پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ غیر جانبدار صحافی بنیں۔ ان کے خیال میں غیر جانبدار صحافی شائد گونگا، بہرا، اندھا ہوتا ہے، اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی یا اسے کسی معاملے میں رائے دینے کا حق نہیں۔
بات سمجھنا مشکل نہیں۔ صحافت کے تین چار مرکزی شعبے ہیں،خاص کر اخبار میں۔
سب سے اہم ہے رپورٹر جو خبریں نکال کر لاتے ہیں۔ رپورٹر کو مکمل غیر جانبداری سے خبر رپورٹ کرنی چاہیے۔ وہ کسی سیاسی جلسے میں گیا، کسی کرپشن سکینڈل کی خبر اس کے پاس آئی یا وہ کسی اہم واقعے کو رپورٹ کر رہا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنی پسند ناپسند اور ذاتی تعصبات سے بالاتر ہو کر جیسے خبر ہے ویسے رپورٹ کرے۔ اس میں مبالغہ کرے نہ کمی ۔ وہ اسے کوئی اینگل دینے کی کوشش بھی نہ کرے۔ یہ رپورٹر اخبار کا بھی ہوسکتا ہے، ٹی وی کا بھی۔ کیمرہ مین بھی نیوز فوٹوگرافر کہلاتے ہیں، ٹی وی پر خاص طور سے ان کا کیمرہ بہت کچھ بتاتا ہے۔ اچھے رپورٹر ہمیشہ خبر میں دوسرے فریق کا موقف شامل کرتے ہیں یعنی ان کی خبر یک طرفہ نہیں ہوتی۔ اچھے اخبار اور چینل بھی دوسرے موقف کے بغیر خبر نہیں چلاتے۔
نیوز سب ایڈیٹر: اخبار ہو یا ٹی وی ، وہاں پر رپورٹر کی خبر نیوز روم میں آتی ہے۔ سب ایڈیٹر اس خبر کی تراش خراش، زبان درست کرتا ہے، اسے خبر کی شکل دیتا ہے، صحافتی حوالے سے پانچ ک یا انگریزی میں پانچ W کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ کیا ،کیسے، کہاں، کون وغیرہ ، اس حوالے سے خبر تشنہ ہو تو اسے ٹھیک کیا جاتا ہے۔ ۔ سب ایڈیٹر ہی خبر کی پرکشش سرخی بناتا ہے۔ ظاہر ہے اسے بھی غیر جابنداری سے خبر بنانی چاہیے ، اپنا ذاتی اینگل شامل نہ کرے۔
میگزین/ فیچر رائٹر: اس مین بنیادی طور پر تو میگزین کے فیچر رائٹر آتے ہیں، مگر اب نیوز فیچر کی بھی اصطلاح بن چکی ہے۔ فیچر رائٹر بھی غیر جانبداری سے کام کرتا ہے، مگر وہ کوشش کرتا ہے کہ خبر یا کسی واقعے کے مختلف پہلو سامنے آ جائیں۔ فیچر ملٹی ڈائمینشل ہوتا ہے۔ مختلف سائیڈ سٹوریز کے ذریعے مکمل منظرنامہ قاری یا ناظرین کے سامنے لانا مقصود ہوتا ہے۔
اداریہ؛ یہ ٹی وی کا نہیں اخبارات کا مسئلہ ہے، مگر ہے بہت اہم ۔ اخبار کا اداریہ دراصل اخبار کی پالیسی ہے۔ یہ اداریہ ایڈیٹر یا سینئر صحافی لکھتے ہیں، اب تو خیر اخبارات میں سینئر صحافیوں کو بطور اداریہ نویس ہی رکھا جاتا ہے اور وہ یہی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔اداریہ لکھنے والی کی سوچ نہیں بلکہ اخبار یا مالکان کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر اخبار کی اپنی ایک پالیسی ہوتی ہے، جیسی ایک زمانے میں نوائے وقت پاکستانیت ، اینٹی انڈیا سوچ کا علمبردار تھا۔ نوائے وقت کے اداریے بھی اسی سوچ کے غماز تھے۔آج کل بعض اہم چینلز کا دس بجے کا پروگرام بھی ایک طرح سے اس چینل کا اداریہ ہوتا ہے ۔ جیو کے بارے میں یہی مشہور ہے ۔
اخبارات میں عام طور سے خبر کے ساتھ رپورٹر کا نام نہیں جاتا، انہیں مختلف بیٹس دی جاتی ہیں، کسی کے پاس مذہبی جماعت، کوئی پیپلپزپارٹی، ن لیگ، ق لیگ، پی ٹی آئی وغیرہ، کسی کے پاس سیکریٹریٹ، ریلوے، پی آئی اے اور زراعت وغیرہ جیسے شعبے ہوتے ہیں، مختلف نام جسے ہم صحافت میں کریڈٹ لائن کہتے ہیں، انہیں الاٹ کر دی جاتی ہے۔ کسی کو خبر نگار، نامہ نگار، وقائع نگار، وقائع نگار خصوصی، نیوز رپورٹر وغیرہ وغیرہ۔
کسی خاص خبر کے ساتھ رپورٹر کا نام دیا جاتا ہے، اسے بائی لائن کہتے ہیں اور یہ رپورٹر کا اعزاز ہوتا ہے کہ اس نے ایسی خبر دی جو صرف اس کے پاس تھی اور اس کے انعام میں خبر کے ساتھ رپورٹر کا نام لکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا کریڈیٹ عوامی سطح پر بھی لے سکے ۔
کالم/ تجزیہ ـ اخبار کے باقی تمام شعبے ایسے ہیں جن میں کام کرنے والے اپنی ذاتی رائے ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ ان پر ایک طرح سے پابندی ہوتی ہے کہ اپنی رائے نہ دیں اور جو واقعہ، خبر جیسے ہے، ویسے ہی بیان کر دیں۔
کالم کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ اس میں لکھنے والا اپنی رائے کا اظہار ہی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے کالم نہ صرف لکھنے والے کے نام بلکہ پچھلے بیس پچیس برسوں سے اس کی تصویر کے ساتھ ہی شائع ہوتا ہے۔
کالم نگار مختلف خبروں، واقعات، چیزوں پر اپنی ذاتی رائے، تجزیہ یا مشاہدہ بیان کرتا ہے۔ فطری طور پر کالم نگار کے لئے مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا ممکن نہیں۔ اسے پیسے ہی اپنی رائے دینے کے ملتے ہیں۔
جیسے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ستائیس مارچ کو ڈی چوک پر جلسہ کا اعلان کیا۔ رپورٹر یہ خبر فائل کرے گا کہ وزیراعظم نے یہ اعلان کیا، فلاں فلاں وزیر نے یہ کہا، دوسرا رپورٹر جو اپوزیشن کی جماعتوں کو کور کر رہا ہوگا، وہ خبر دے گا کہ اپوزیشن کا ردعمل کیا ہوگا۔
کوئی رپورٹر دی گئی اسائنمنٹ کے مطابق اس پر قانون دانوں، ریٹائر کمشنر حضرات وغیرہ کی رائے دے گا کہ قانونی پوزیشن کیا ہے، انتظامیہ ایسے میں کیا کرتی رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ فیچر لکھنے والا اس کے مختلف اینگلز کو کور کر کے فیچر بنائیں گے کہ جلسہ کہاں ہوگا، کتنے لوگ وہاں آ سکتے ہیں، کیا تیاریاں چل رہی ہیں، اس کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
رپورٹر، فیچر رائٹر یہ نہیں کہیں گے کہ جلسہ کرنا چاہیے یا نہیں ۔ اس حوالے سے رائے اداریہ میں آ سکتی ہے، مگر وہ اخبار کی آفیشل رائے ہوگی جو کہ بہت بار ڈپلومیٹک ہوتی ہے، اگر، مگر چونکہ چناچہ والی .ویسے بہت بار کوئی خبر اداریہ یا ادارتی نوٹ کا موضوع نہیں بن پاتی کہ پورے اخبار میں صرف دو تین خبروں پر ہی اداریہ یا نوٹ(شذرہ ) لکھا جا سکتا ہے۔
کالم نگار البتہ اس معاملے پر اپنی پرسنل رائے کا اظہار کرے گا۔ وہ اپنے قارئین کو بتائے گا کہ اس کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں، یہ کس قدر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی کالم نگار اس کا دفاع کرےکہ جس طرح کے غیر اخلاقی حربے اپوزیشن استعمال کر رہی ہے، اس کے بعد وزیراعظم بیچارہ کیا کرتا؟ وہ مجبور ہوگیا عوام سے رابطہ پر وغیرہ وغیرہ۔
کالم نگار غیر جانبدار نہیں ہوسکتا۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ ایک واضح رائے دیتا ہے ، کسی کو اچھی لگے یا بری ، اسے اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے اخبار کی پالیسی کی کسی حد تک قدغن ہوتی ہے، مگر بہت بار اخبار اپنی پالیسیوں کو کالمز کے لئے کچھ لچکدار رکھتے ہیں، بعض کالم نگار اتنے ممتاز اور سینئر ہوتے ہین کہ ان کا کالم روکنا یا ایڈیٹ کرنا اتنا آسان نہیں رہتا، اگرچہ یہ ایڈیٹر کا حق ہے کہ وہ کسی بھی کالم کو روک سکے ۔
کالم نگار کو البتہ دیانت داری کے ساتھ اپنی رائے دینی چاہیے۔ اسے متعصب یا کینہ پرور نہیں ہونا چاہیے۔ اسے اینگلنگ نہیں کرنی چاہیے، اپنے قارئین کو وہ جواب دہ ہے، ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرے۔ جو بات جیسے فیل ہو رہی ہے، ویسی بیان کر دے۔
دنیا بھر میں کالم نگار، تجزیہ نگار مختلف ایشوز پر اپنی رائے بناتے ہیں، اسے بیان کرتے ہیں اور پبلک کی اوپینین میکنگ کرتے ہیں، اس لئے انہیں اوپینین میکرز کہا جاتاہے ۔
کالم نگار کبھی اپنی رائے سے رجوع بھی کرتے ہیں۔ کئی امریکی صحافیوں نے عراق وار کے حق میں لکھا ،مگر بعد میں انہوں نے اپنی رائے تبدیل کر لی۔ کئی لوگ پہلے افغانستان پر امریکی حملہ کے حق میں تھے، مگر بعد کے برسوں میں انہوں نے طالبان سے مذاکرات کر کے ایگزٹ کرنے پر زور دیا۔ مودی کو سپورٹ کرنے والے بعض بھارتی صحافی اب اس کے شدید ناقد ہیں۔ کئی پروکانگریس صحافی بعد میں اینٹی کانگریس ہوگئے۔ جب ستر کے عشرے میں اندراگاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور صحافیوں، سیاسی کارکنوں کو سزائیں دیں تو بیشتر لکھنے والوں نے اس پر نرم، سخت الفاظ میں تنقید کی۔ خوشونت سنگھ جیسا لکھنے والا ایمرجنسی کا حامی تھا اور اس نے بھرپور دفاع کیا، بعد مین اس پر کتاب بھی لکھی۔
کالم نگار صحافی بھی ہوتے ہیں اور مختلف شعبوں کے پروفیشنل بھی۔ ریٹائر عسکری ماہرین، ریٹائر سفارتکار، معاشی ماہرین، تعلیم، صحت، ماحولیات وغیرہ کے ماہرین اپنے کالم لکھتے ہیں۔ تاہم سینئر صحافی اور کبھی سینئر رپورٹر حضرات بھی کالم لکھتے ہیں۔اردو صحافت میں چونکہ زباں وبیاں اور اسلوب کی بڑی اہمیت ہے ، عوام کی دلچسپی معاشیات، خارجہ امور وغیرہ میں بہت کم ہوتی ہے، سماجی موضوعات ،سیاست،ادب وغیرہ معروف موضوعات ہیں، کچھ لوگ ہلکے پھلکے انداز میں بھی ان موضوعات پرلکھتے ہیں ، اکا دکا شگفتہ لکھنے والے بھی ہیں انہیں فکاہیہ نگار کہا جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ ایک کالم نگار سے غیر جانبداری کے نام پر گونگا اندھا ہونے کا مطالبہ کرنا پرلےدرجے کی لاعلمی اور جہالت ہے۔ وہ اپنی سوچی سمجھی رائے اور تجزیہ پیش کرتا ہے۔ اسے پڑھنے والے اس لئے پڑھتے اور اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ کالم نگار یا صحافی کی رائے اہم ہے۔ درحقیقت تجزیہ کار یا صحافی کو اپنی رائے دینے کے ہی پیسے دئیے جاتے ہیں۔
ایاز امیر جو دنیا اخبار میں کالم لکھتے اور دنیا چینل پر پروگرام کرتے ہیں، انہیں اپنی رائے ظاہر کرنے کے ہی لاکھوں روپے دئیے جاتے ہیں،اسی طرح دیگر سب کا معاملہ ہے۔ ظاہر ہے یہ تو انڈرسٹڈ ہے کہ رائے دینا والا ایمانداری سے اپنی رائے دے گا، وہ پیڈ نہیں ہوگا اور مفادات کی خاطر ضمیر کا سودا نہیں کرے گا۔تاہم کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ رائے دینے والے کسی خاص نظریے یا سوچ کے علمبردار ہوتے ہیں اور ان کی رائے بعض ایشوز میں بڑی حد تک طے شدہ ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود چونکہ ان کو پڑھنے یا سننے والا ایک بڑا حلقہ موجود ہے اور وہ عوامی حلقہ اس رائٹر یا تجزیہ کار کی بات کو اہمیت دیتا ہے، اس لئے اخبارات یا چینلز اس مخصوص رائے کو بھی اپنے پیکیج میں شامل کرتے ہیں تاکہ آڈینس یا قارئین کا وہ حلقہ بھی ان کے ساتھ جڑا رہے۔
مثال کے طور پر امریکہ میں کچھ صحافی روایتی طور پر کنزرویٹو ہیں وہ قدامت پسند تصورات کو اپنے کالموں، وی لاگ، ٹاک شوز، ریڈیو شوز میں پیش کرتے ہیں اور ان کے لاکھوں اور کبھی تو کئی کئی ملین سننے ، پڑھنے والے ہوتے ہیں، کچھ لبرل ڈیموکریسی ، لبرل اکانومی یا سیاسی طور پر ڈیموکریٹس کو سپورت کرتے ہیں، برطانیہ میں بعض اخبار پرو لیبر پارٹی، پرو ٹوری پارٹی ہیں، کچھ لبرل ڈیمو کریٹس کے حامی ، ان کے لکھنے والے بھی اسی طرح کے ہیں، انڈیا میں بھی اسی طرح پروکانگریس، پرو بی جے پی، پرو لیفٹ، پرو دلت وغیرہ وغیرہ۔(عامر خاکوانی)۔۔