تحریر: علی حسن۔۔
پاکستان کے لئے آئی ایم ایف اسٹاف کے مرحلے پر قرضہ دینے کی منظوری مل چکی ہے لیکن بدھ کے روز بورڈ منظوری دے گا تب ہی قرضہ پاکستان کی اسٹیٹ بنک کو فراہم کر دیا جائے گا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو9 یقین دہانیاں کرائی ہیں کہ اسلام آباد مالی سال 2023 کے اختتام کے لیے 4.056 ارب ڈالرز کی موجودہ سطح کے مقابلے مالی سال 2024 کے اختتام تک زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 7.65 ارب ڈالرز تک بڑھانے کیلئے تمام تر اقدامات کرے گا جو بڑھ کر 11.7 ارب ڈالرز ہوجائیں گے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان جمیل احمد کے دستخط شدہ ایل او آئی نے 9 ماہ کی مدت کے لیے 3 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت آئی ایم ایف اور اس کے ایگزیکٹو بورڈ کو یقین دہانیاں کرائی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا روک (بفر) پاکستان کی معیشت کو کسی بھی بیرونی جھٹکے کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیا جائے گا۔بیلنس آف پیمنٹ کے اعداد و شمار پر آئی ایم ایف اور پاکستانی فریق کی جانب سے کئے گئے تکنیکی کام نے ظاہر کیا کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے دوران کثیرالجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان سے بیرونی فنانسنگ کو یقینی بنانا ہوگا۔پاکستان سعودی عرب سے 2 ارب ڈالرز اور متحدہ عرب امارات سے 1 ارب ڈالرز کے اضافی ڈپازٹس چاہتا ہے۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے 1 ارب ڈالرز کا قرضہ پروگرام فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے پروگرام کے قرضے اور پراجیکٹ فنانسنگ پر بھی کام کیا جا رہا ہے تاکہ تمام کثیر جہتی اور دو طرفہ راستوں سے 15 ارب ڈالرز تک کی مجموعی تقسیم کو محفوظ بنایا جا سکے۔پاکستان کو رواں مالی سال میں بالترتیب 2 ارب ڈالرز، 3 ارب ڈالرز اور لگ بھگ 2 ارب ڈالرز کے اپنے موجودہ ذخائر کو رول اوور کرنے کے لیے دو طرفہ شراکت داروں خاص طور پر چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا پیچھا کرنا ہوگا۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 12 جولائی 2023 کو واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والا ہے جس میں دستخط شدہ ایل او آئی کے ذریعے 3 ارب ڈالرز کے قلیل مدتی بیل آﺅٹ پیکج کی منظوری اور 1 ارب ڈالرز کی قسط جاری کرنے کے لیے پاکستان کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔یہ 1 ارب ڈالرز کی قسط فنڈ کے ایگزیکٹیو بورڈ سے قرضہ پیکج کی منظوری کے بعد اگلے چند دنوں میں ادا کر دی جائے گی۔ آئی ایم ایف کا عملہ پہلے ہی ایگزیکٹو بورڈ کے ممبران میں ایل او آئی کی کاپیاں بھیج چکا ہے جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک نے مالیاتی اور توانائی کے شعبوں میں اہم اصلاحات کرنے کی یقین دہانی کرائی تاکہ مالیاتی کھاتوں کی خرابیوں پر قابو پایا جا سکے۔اسلام آباد نے آئی ایم ایف کو توانائی کے شعبوں کی پیروی کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی جس میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کے عفریت پر قابو پانے کے لیے تمام ضروری اقدامات شامل ہیں۔
لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس قرضہ کے بعد پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا پاکستان کو دوبارہ قرضہ کی درخواست تو نہیں کرنا پڑے گی ؟ ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ کوئی معجزہ تو ہوگا نہیں کہ پاکستان کو مزید قرضہ کی درخواست نہ دینا پڑے۔ پاکستان حکمران طبقہ ہو یا دولت مند افراد وہ پاکستان کو اپنی دولت میں سے ایک سکہ بھی دینا نہیں چاہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ پاکستانی اپنا گھر بھی ٹھیک کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ حکمران ہوں، سیاست دان ہوں، اعلی سرکاری ملازمین ہوں، یا کوئی بھی وہ ہو جس کے پاس دولت ہے ، وہ پاکستان میں ہونے والی آمدنی میں اپنا حصہ چاہتے ہیں لیکن دینا کچھ نہیں چاہتے ہیں۔ حکمران بھی کچھ کرنا نہیں چاہتے ہیں کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن کی وجہ سے پاکستان کی مالی حالت بہتر ہو سکے۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ وفاقی اور صوبائی کابینہ کے آراکین کسی معاوضے، مراعات اور سرکاری سہولت کے بغیر خدمات انجام دیں۔ ایسا کیوں نہیں کہ قومی اسمبلی، سینٹ، صوبائی اسمبلیوں کے آراکین کم از کم تین سال کے کے کسی معاوضہ اور مراعات کے بغیر اپنے اپنے حلقے کی نمائندگی کریں۔ گریڈ سولہ اور اس سے اوپر تمام سرکاری کی تن خواہیں دو مرحلہ نیچے کر دی جائیں اور ہر قسم کی مراعات معطل کر دی جائیں۔ سرکاری اداروں کے تمام غیر ضروری اور غیر اہم اخراجات پر سخت بندش ڈال دی جائے۔ایسے تمام اقدامات کئے جائیں جن کی وجہ سے پاکستان پائی پائی بچا سکے۔
معاشرہ میں رہنے والے ہر صحت مند شخص کو کسی نہ کسی کام سے لگایا جائے۔ جاپان ہو یا چین ، وہاں عمر رسیدہ لوگوں کو بھی مصروف کار رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کو بے کار چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیوں نہیں تعلیم یافتہ لوگوں کو بچوں کو رضاکارانہ تعلیم دینے، ان کی تربیت کرنے، ان کے گفتگو کرنے پر نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ جن اساتذہ سے چھ گھنٹے کام لیا جاتا ہے انہیں دوسرے شفٹ میں رضاکارانہ کام پر لگا یا جائے۔ بے روز گار نوجوانوں کو سڑکوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے لائبریریوں کو آباد کرنے، پودے لگانے، اسپتالوں میں مریضو ں کی تیمار داری کرنے کی رضاکارانہ ذمہ داری لگائی جائے۔ ایک تو انہیں مصروف رکھا جائے گا دوم ان کی تربیت ہو رہی ہوگی جو ان کی زندگی میں ہی کام آئے گی۔
ہماری حکومتوں کی غفلت یہ ہے کہ کسی بھی مرحلے پر عوام سے دو طرفہ رابطہ نہیں ہوتا ہے۔ حکومت میں موجود وزراءہوں یا آراکین پارلیمنٹ ہوں یا صوبائی اسمبلیاں ، وہ عوام سے رابطہ رکھنے یا گفتگو کرنے کو شائد اپنی ہتک تصور کرتے ہیں۔ ایسے بھی منتخب نمائندے ہیں ، جنہیں اتفاق سے ان کے ووٹروں نے انتخابات کے موقع پر دیکھو ہوگا اس کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں۔ جس طرح کی صورت حال سے ہم دوچار ہیں اس میں تمام حکومتوں، سیاسی جماعتوں ، ذرائع ابلاغ کو اپنی اپنی جگہ اور حیثیت میں جنگی بنیادوں پر ایسے اقدامات کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ پاکستان کی مالی حالت کو بہتر کرنے کے لئے کیا کیا جائے۔ حکومتیں اور آعلی سرکاری عمال اس بات پر ہی مطمعن ہو گئے ہیں کہ چلو قرضہ منظور ہو گیا، کچھ وقت تو گزر ہی جائے گا۔ یہ سوچنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں کہ قرضہ کرنے روز چلے گا۔ ویسے بھی اب تو بات یہاں تک پہنچی ہے کہ پارک اور کھیل کے میدان تک غیر ملکوں کو لیز پر دئے جا رہے ہیں۔ تفصیلات پارلیمنٹ کے عمل میں بھی نہیں ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ اور عوام کو آگاہ کرنے میں الجھن محسوس کرتی ہے۔عوام کو اطلاعات تک رسائی کے قانون کی موجودگی کے باوجود سب کچھ چھپایا جاتا ہے۔ پارک پلے گراﺅنڈ، ہوائی آڈے بندر ر گاہ اور دیگر چیزوں کو لیز پر دینے یا گروی رکھنے کے علاوہ حکمرانوں کے کراچی لاہور اسلام آباد اور بیرون ملک موجود محلات نما مکانات کو لیز پر کیوں نہیں رکھا جا رہا ہے۔ حکمرانی تو جنہیں کرنا ہے ان کی ہی جائدادیں اس ملک کو چلانے کے لئے حاصل کرنے والے قرضوں کے لئے لیز پر دئے جائیں تو بہتر کیوں نہیں ہوگا۔ (علی حسن)