تحریر: سید عارف مصطفیٰ
کچھ بھی نہیں بدلا ، اس مرتبہ بھی عامر لیاقت کے ہاتھوں رمضان المبارک کا تقدس اسی طرح مجروح ہوا کہ جس طرح گزشتہ کئی برسوں سے انکا شعار رہا ہے کہ رمضان کی مقدس شبوںمیں کہ جب دین کے پاسدار تراویح و دیگر عبادتوں میں مشغول ہوتے ہیں تو نماز اور تراویح سے بیگا نہ ہوکے ، اسلامی اسکالر کہلانے والا یہ شخص ٹی وی اسکرین پہ طرح طرح کی بیہودگیوں اور رنگ رلیوں کے جلوے بکھیر رہا ہوتا ہے حتیٰ کہ مقدس طاق راتیں بھی کبھی اس کی ان غلیظ حرکات سے محفوظ نہیں رہیں۔۔
اس بار تو اوائل رمضان ہی میں موصوف نے وہ کارنامہ کردکھایا کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے کہ جب رمضان کی پرنور ساعتوں میں ایکسپریس چینل کی نشریات میں حضرت نے نہایت شرمناک طور پہ ناگن ڈانس کیا ۔۔ جس پہ ہر کسی نے تھو تھو کی ، سوائے ان چند خاص علماء اور نعت خوانوں کے کہ جو انکے پروگراموں میں شرکت اور خطیر چیک ملنے کی قیمت پہ کچھ بھی گوارا کرنے کو تیار ہیں اور نہایت برخورداری سے موصوف کی جعلی ڈاکٹری کا بھانڈا پھوٹ جانے کے بعد بھی انہیں بڑی برخورداری سے ڈاکٹر صآحب ڈاکٹر صاحب پکارے چلے جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر عامر لیاقت کی ہر ادا پہ واری نیاری ہوکے دکھاتے ہیں۔۔
یہ علماء تو اس وقت بھی چپ رہے تھے کہ جب عامر لیاقت نے 2 خلفائے راشدین پہ تبرا کیا تھا اور یہ لوگ اس وقت بھی خاموش تھے کہ جب عامر لیاقت کی نےاپنی کسی معاون کے مناسب طور پہ دوپٹہ نہ اوڑھنے پہ تنقید کے جواب میں نہایت دیدہ دلیری سے یہ گستاخانہ بات کہی تھی کہ ” کسی ایسے کو دوپٹے کی بھلا کیا ضرورت کہ جس کے گلے میں نبی پاک کی محبت کا پٹآ ہو ۔۔۔ درحقیقت یہ شرمناک فقرہ قرآن کو جھٹلانے اور مسلمہ اسلامی احکامات کی تکذیب اور انکا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کیونکہ قرآن اور احادیث میں عورتوںکے دوپٹے اور پردے کی بابت صریحاحکامات موجود ہیں۔
رمضان المبارک میں عامر لیاقت کے شرمناک ناگن ڈانس پہ میرے ذہن میں تین سوال ابھرتے ہیں پہلا سوال تو یہ ابھرتا ہے کہ اس مقدس مہینے کی اس توہین پہ ایکسپریس چینل نے کیا تادیبی قدم اٹھایا اور عامر لیاقت کو فوراً چلتا کرکے عوام سے معافی کیوں نہیں مانگی یا پھر کسی قیمت پہ بھی ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے ہر حد تک گرجانا ایکسپریس چینل کی بھی پالیسی ہے ۔۔۔؟- دوسرا سوال تحریک انصاف کی حکومت سے ہے کہ اسکے ایک ایم این اے نے برسرعام رمضان کے تقدس کو جس طرح پامال کیا اس پہ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم کرنے والی پی ٹی آئی نے بطور جماعت اور اسکی حکومت نے کیا ایکشن لیا اور تیسرا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ آخر اس معاملے پہ پیمرا کہاں جاکے چھپ گیا جو کہ ایسے معاملات میں روک تھام کرنے اور تادیبی اقدام اٹھانے کا مجاز اور مختار آئینی ادارہ ہے ۔۔۔
بتایا جائے کہ پیمرہ نے اب تک رمضان کی دھجیاں اڑاڈالنے والے اس ناگن ڈانس پہ کوئی ابضباطی کارروائی کیوں نہیں کی۔۔۔ کیا اس لئے کوئی کارروائی نہیں کی کہ اس برائی کا ذمہ دار مرکزی ذمہ دارفرد ایک حکومتی ایم این اے ہے ۔۔ تو پھر تو یہ طاقت کے سامنے سجدہ کرنے جیسا کوئی افسوسناک معاملہ ہے اور بلاشبہ اس طرح کے مجرمانہ و غافلانہ رویئے ہی سے وہ بیزاریاں جنم لیتی ہیں کہ جو عوم کو ان اداروںسے لاتعلق کرڈالتی ہیں اور ان کا اس ادارے پہ رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوکے رہ جاتا ہے۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔۔