خصوصی رپورٹ۔۔
پاکستان میں آئی ٹی کے نگراں وزیر ڈاکٹر عمر سیف نے پاکستانی فری لانسرز کو یہ ’خوشخبری‘ سنائی ہے کہ وہ جلد اپنے مغربی ممالک کے کلائنٹس سے بذریعہ پے پال ادائیگیاں وصول کر سکیں گے۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ حکومت نے فری لانسرز کے لیے یہ سہولت پیدا کی ہے کہ وہ اب باآسانی بینک اکاؤنٹس کھول سکیں گے، ان سے آئی ٹی کے زمرے میں کم ٹیکس وصول کیا جائے گا اور پالیسی کی سطح پر تبدیلیاں کی گئیں جس کی بدولت ان کے لیے ادائیگیاں وصول کرنا آسان ہوجائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’باہر بیٹھا کوئی شخص، جس کے پاس پے پال کا والٹ ہے، وہ پاکستان میں مقیم فری لانسر کو (گِگ یعنی کام کے بدلے) رقم بھیج سکے گا۔ فری لانسرز کو فوراً یہ پیسے اپنے بینک اکاؤنٹ میں وصول ہوجائیں گے۔‘
اس پیشرفت سے باخبر ایک ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پے پال پاکستان میں اپنے آپریشنز شروع نہیں کر رہا بلکہ یہ نئی سہولت پاکستانیوں کو ایک عالمی شراکت داری کے نتیجے میں حاصل ہو رہی ہے جس کے اثرات ’صرف پاکستانی صارفین تک محدود نہیں۔‘
دراصل پے پال کا ایک دوسری امریکی کمپنی پیونیئر سے سٹریٹیجک معاہدہ ہوا ہے جس کا اعلان خود پیونیئر نے اپنی ویب سائٹ پر کیا۔
پیونیئر کا کہنا ہے کہ جلد صارفین اس کی سروس استعمال کرتے ہوئے پے پال کی ادائیگیاں وصول کر سکیں گے۔
وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کام نے حال ہی میں یہ بیان جاری کیا کہ نگراں وزیر ڈاکٹر عمر سیف نے فری لانسرز کے لیے بیرون ممالک سے پیمنٹ گیٹ وے کا قابل عمل منصوبہ بتا دیا ہے۔
وزارت آئی ٹی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں عمر سیف کہتے ہیں کہ ’فری لانسرز کا ایک درینہ مطالبہ تھا کہ پاکستان میں پے پال، سٹرائپ اور وائر کو لایا جائے تاکہ وہ اپنی آسانی سے اپنی ادائیگیاں پاکستان میں وصول کر سکیں۔‘
وہ یہ ’خوشخبری‘ سناتے ہیں کہ ’پاکستانی فری لانسرز پے پال کے ذریعے پیمنٹ وصول کر سکیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے یہ پروگرام اس طرح سے تشکیل دیا ہے کہ اب آپ کو پاکستان میں بیٹھے ہوئے پے پال کا اکاؤنٹ کھولنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو نظام وضع کیا گیا اس کے ذریعے باہر بیٹھا کوئی بھی شخص آپ کو اپنے پے پال والٹ سے پیسے دے سکے گا جو آپ کو اسی وقت پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں وصول ہو جائے گی۔‘
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے عمر سیف کا کہنا تھا کہ پاکستان سے کام کرنے والے فری لانسرز کو ملک میں چھوٹی ادائیگیاں وصول کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں ہیں کہ فری لانسرز بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوا پاتے تھے جبکہ ان کے پاس مخصوص کوڈ نہیں تھا جس سے فری لانس کی آمدن آئی ٹی کی برآمدات میں بُک ہوسکے اور اسی وجہ سے انھیں 30 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔اب بڑی بات یہ ہوئی ہے کہ فری لانسرز کو مخصوص کوڈ اسائن ہوگیا ہے جس کے ذریعے ان کے باہر سے پیسے آسکیں گے۔ یہ رقوم آئی ٹی میں بُک ہوگی۔ انھیں صرف 0.25 فیصد ٹیکس ریٹ پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی مدد سے فری لانسرز کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے میں آسانی پیدا کی گئی ہے۔ عمر سیف کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں بیٹھے کلائنٹس اکثر فری لانسرز کو ادائیگیاں کرنے کے لیے پے پال یا سٹرائپ جیسی سروسز استعمال کرتے ہیں تاہم پاکستان میں ان سروسز کے ذریعے رقوم وصول نہیں کی جاسکتیں۔وزیر آئی ٹی نے کہا کہ ’ہمیں پے پال کو پاکستان لانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ہم صرف چاہتے ہیں کہ فری لانسرز کو بذریعہ پے پال بھیجی گئی رقوم ان کے بینک اکاؤنٹ میں وصول ہوجائے۔عمر سیف نے واضح کیا کہ اس پیشرفت کے باوجود پے پال جیسی سروسز پاکستان میں اندرون ملک رقم کی منتقلی کے لیے استعمال نہیں ہوسکے گی اور نہ ہی اس کے ذریعے پاکستان سے باہر پیسے بھیجے جاسکیں گے۔یعنی پیونیئر کے ذریعے پے پال کی ادائیگیاں ون وے سٹریک کے طور پر پاکستان آسکیں گی۔
پے پال آن لائن زیادہ تر چھوٹی رقوم کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسے ’پے ٹو پیئر‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے یعنی لوگوں کے درمیان رقم کا تبادلہ۔ دنیا میں بہت ہی کم ممالک ہیں جہاں پے پال نہیں۔اب تو موبائل پے منٹ کے کچھ سسٹم آ گئے ہیں لیکن پہلے دنیا بھر میں یہی طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ اس میں صرف آپ کو جسے رقم بھجوانی ہے، اس کا ای میل چاہیے ہوتا ہے اور آپ اپنی رقم کی ترسیل بیرون ملک کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر بہاولپور ملتان یا کہیں بھی کوئی خاتون کپڑے بنا کر باہر بھجوا رہی ہیں۔ بھیجنا تو آسان ہے لیکن اگر وہ اس کے بدلے میں پیسے یعنی اپنی اجرت لینا چاہتی ہیں تو وہ گھر بیٹھ کر یہ لے سکتی ہیں۔ اس میں آپ کو گھر سے نکل کر ایزی پیسہ یا ویسٹرن یونین کے کاؤنٹر پر نہیں جانا پڑتا۔پے پال نے پاکستان میں آپریشنز شروع کرنے کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا۔ البتہ اکثر پاکستانی فری لانسرز کے ذریعے استعمال سروس پیونیئر کا کہنا ہے کہ جلد اس کے صارفین اپنے امریکی کلائنٹس سے بذریعہ پے پال رقم منگوا سکیں گے۔
اس کا کہنا ہے کہ صارفین اپنا بل امریکی کلائنٹس کو بھیجیں گے اور وہ اپنے پاس دستیاب آپشنز میں سے پے پال کا انتخاب کر کے پاکستان میں رقم بھیج سکیں گے۔پیونیئر نے کہا ہے کہ یہ اپنے صارفین کو پے پال سے رقم منگوانے پر اچھے ریٹ آفر کرے گا۔پاکستان میں ٹیکنالوجی کے شعبے پر گہری نظر رکھنے والے صحافی تیمور حسن کے مطابق پے پال ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ طریقے سے پاکستان میں اپنے آپریشنز شروع نہیں کر رہا بلکہ یہ دو کمپنیوں کے بیچ ایک شراکت داری ہے۔
اس پیشرفت سے باخبر ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیونیئر اور پے پال کے درمیان عالمی سطح پر شراکت داری ہوئی ہے اور یہ فیچر محض پاکستانی صارفین کے لیے نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ پاکستانی صارفین اس فیچر کو استعمال کر کے پے پال اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے۔یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں مقیم فری لانسرز کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ انھیں امریکہ سمیت دنیا بھر سے رقوم وصول کرنے میں مسائل پیش آتے ہیں اور اس کا حل یہ ہوگا کہ پے پال یا اس جیسی دیگر سروسز کو پاکستان میں متعارف کرایا جائے۔اس وقت آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کی برآمدات سالانہ چند ارب ڈالر ہیں مگر گذشتہ سال اکتوبر کے دوران خود ڈاکٹر عمر سیف نے اعتراف کیا تھا کہ اگر ملک میں 10 لاکھ فری لانسرز کو 30 ڈالر روزانہ کمانے کی تربیت اور وسائل دستیاب ہوجائیں تو آئی ٹی کی درآمدات 10 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق پے پال تاحال اس لیے پاکستان میں اپنی سروسز متعارف نہیں کرا سکا کیونکہ ملک میں الیکٹرانک منی انسٹیٹیوشنز کے لیے ریگولیٹری فریمورک کے مسائل ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ کہ پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے اس قدر سازگار ماحول نہیں جتنا پے پال چاہتا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں آن لائن ادائیگیوں کی بعض سروسز جیسے پیونیئر دستیاب ہیں تاہم ریگولیٹری رکاوٹیں موجود ہیں جبکہ منی لانڈرنگ، جعلسازی اور بیرون ملک اثاثوں کی منتقلی جیسے خدشات پائے جاتے ہیں۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔