کیا ’ لکھنا‘ کوئی مفت کا کام ہے۔۔۔؟

تحریر: رضوان طاہر مبین۔۔

گذشتہ دنوں شہر کے ایک ناشر نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم آپ کے کیے گئے مختلف شخصیات کے انٹرویو کو کتابی صورت میں شایع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا ضرور، آپ دیکھ لیجیے اور پھر بتائیے کہ کیا کیجیے گا۔انھوں نے ہمارے انٹرویو ملاحظہ کیے اور پھر فرمایا کہ جی بالکل، ہم یہ شایع کریں گے۔ چلیے جناب، بہت خوشی کی بات ہے، ہم نے دل کی بات کا اظہار زبان سے بھی کیا، مگر بات نہیں بنی یا شاید ہمارے مخاطب ’’سمجھنا‘‘ ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ فرمایا کہ آپ کو جتنے نسخے چاہیے ہوں گے، ہم نصف قیمت پر عطا کریں گے۔

ہم نے کہا وہ تو ٹھیک ہے، لیکن آپ ہماری کتاب شایع کریں گے، اس کی آپ ہمیں کیا ادائی کریں گے۔۔۔؟ تو انھوں نے روایتی عذر کیے اور کہا یہاں تو کوئی بھی معاوضہ نہیں دیتا، پھر بھی ہم نے اصرار کیا، تو ان کی بات بدلے میں صرف 10 نسخوں کی ’’مفت‘‘ فراہمی تک ہی آسکی، تو ہم نے شکریے کے ساتھ ان کی یہ پیش کش واپس کر دی اور کہا کہ فی الحال ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں تحریر کی اور لکھنے والے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، آپ کتاب ہی کی مثال لے لیجیے، کتابت، طباعت واشاعت سے لے کر اس کی تقسیم کاری تک۔ ہر ایک مرحلے پر مکمل محنتانہ دیا جائے گا، لیکن یہ سب مراحل جس کی تحریر پر استوار ہیں، اسے ایک دھیلا دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جائے گی۔الٹا اِس پر یہ احسان ہوگا کہ ہم نے اس کی کتاب شایع کر دی ہے، کیوں کہ ہمارے بدقسمت ملک میں لکھنے والے اپنی محنت استحصال کرنے کو مختلف بدنام زمانہ ناشرین کے پاس چھوڑ آتے ہیں، اور وہ کتاب چھاپ کر اس کے ہزاروں نسخے فروخت کر دینے کے باوجود یہی عذر کرتے رہتے ہیں کہ ابھی تک پہلا ایڈیشن ہی ختم نہیں ہوا اور انھیں تو یہ کتاب شایع کر کے بہت خسارہ ہوا یا کوئی فائدہ ہی نہیں ہوا، تاکہ کہیں مصنف اپنے معاوضے کا تقاضا نہ کر بیٹھے۔ بہت سے لکھنے والے اپنی جیب سے ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی اپنی کتاب چھپواتے ہیں اور پھر انھیں مفت بٹواتے بھی پھرتے ہیں۔

بھئی، اگر بھاری رقم دے کر یا 100، 50 نسخے خریدنے کی شرط پر ہی کتاب شایع کرانی پڑ رہی ہے، تو پھر اس کو کسی نام نہاد ’ناشر‘ کا محتاج کیوں بنایا جائے۔ اچھا ہے کہ خود ہی طباعت واشاعت سے لے کر آگے تک کے مراحل بھی طے کر لیے جائیں، اس سے کم سے کم لکھنے والے کی محنت ظالم ناشرین کی جیب میں جانے سے تو محفوظ رہے گی۔اور اگر کوئی کتاب کسی ’ناشر‘ ہی سے شایع کرانی ہے، تو پھر اس کے لیے مصنف اور ناشر کے درمیان ایک باقاعدہ معاہدہ ہونا ضروری ہے، جس میں کتاب کے حقوق اشاعت سے لے کر ’حقِ مصنف‘ تک کے سارے معاملات طے کیے جائیں۔ یہ بات درست ہے کہ کاغذ سے لے کر طباعت واشاعت سرکاری کرم فرمائی کے سبب بالکل بھی ارزاں نہیں رہے، لیکن اس کے باوجود بھی یہ کیسا اصول ہے کہ جس کی تحریر کی وجہ سے کتاب، دراصل کتاب بنی ہے، اسی کا حق تلف کر دیا جائے۔۔۔!

لکھنے والوں کی حق تلفی کا سلسلہ صرف کتاب تک محدود نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اخبارات کے حوالے سے بھی لکھنے والے یا اخباری متن کے حوالے سے محنت مشقت کرنے والوں کو وہ مقام ومرتبہ نہیں دیا جاتا، جو اخبارات کے لیے اشتہار لانے والوں کو دیا جاتا ہے اور باقاعدہ جتایا بھی جاتا ہے کہ جناب والا یہ تو اخبار کے لیے آمدنی لاتے ہیں، لیکن ہمارے ایک سینئر نے کیا خوب صورت بات کی تھی کہ اگر اشتہار اتنا ہی اہم ہے تو پھر کسی کورے کاغذ پر ہی اشتہار لے آئیے۔۔۔! ہم لکھنے والوں ہی کے الفاظ موجود ہوتے ہیں، تو کسی بھی ویب سائٹ، اخبار یا رسالے کو اشتہار ملتے ہیں ورنہ آپ خود سوچیے کہ باقی رہ کیا جاتا ہے۔

اور ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمی لکھنے والوں کو معاوضہ دیتے ہوئے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ گویا یہ تو کوئی کام ہی نہیں۔۔۔ یہی نہیں بہت سے احباب تو کتاب کی ادارت، اور پروف خوانی کے حوالے سے بھی اچھی خاصی سنگ دلی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ بھی لکھنے سے کسی طرح بھی کم محنت طلب نہیں ہے، اور بعضے وقت تو لکھنے سے زیادہ مشقت مانگتا ہے۔کیوں کہ جملوں کی بُنت، ساخت اور املا وانشا کی دسیوں قسم کی اغلاط ایسی ہوتی ہیں، جو کسی بھی اچھی بھلی تحریر کا ستیا ناس کر دیتی ہیں، جب کہ کتاب کی طباعت واشاعت کرنے والے بہت آسانی سے کتاب کی ادارت اور پروف خوانی کرنے والوں سے بھی ’معذرت‘ کر لیتے ہیں کہ ’دیکھیے، تھوڑا سا سمجھنے کی کوشش کیجیے۔۔۔ ہمارا بجٹ محدود تھا، اخراجات بڑھ گئے۔۔۔ یا لاگت بہت زیادہ ہوگئی۔

وغیرہ وغیرہ۔ بھئی، یہ سارے عذر آپ نے چھاپہ خانے میں کیوں نہ دیے کہ بھائی ذرا کتاب مفت میں چھاپ دو، کاغذ کے بیوپاری سے کہتے کہ اپنے بھاؤ ذرا کام کر دو، ہمارے جیب پر گراں گزر رہا ہے، یا کتاب کی ڈیزائننگ کرنے والوں کو کہا ہو کہ بھیا، اس کام کے پیسے نہ لیجیو، اس بار ہمارا ہاتھ نہیں پڑ رہا۔ یا کچھ نہیں تو کتاب کے تقسیم کنندگان ہی سے کہہ دیجیے کہ ایسے ہی گلی گلی اور شہر شہر لے جانا ہماری نئی نویلی کتاب، کیوں کہ ہمارے پاس پیسے کم پڑ رہے ہیں! نہیں ناں۔آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ بھلا بغیر پیسوں میں کون یہ سارے کام کرے گا۔۔۔! لیکن آپ نے جھٹ سے لکھنے والے کا ضرور سوچ لیا، کہ اِسے بھلا کیا ضرورت۔۔۔! یعنی کوئی بھی تحریر یا کتاب لکھنے اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں جو مہینے اور ہفتے صرف ہوئے وہ کسی گنتی میں ہی نہیں! اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اِسے کوئی مذاق یا کھیل تماشا سمجھ رکھا ہے۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ کچھ لگتا ہی نہیں ہے۔

بس ایسے ہی بیٹھیے بٹھائے، کمپیوٹر پر انگلیاں چلا لیجیے، کاغذ قلم لے کر صفحات کے صفحات سیاہ کر دیجیے، کون سا مشکل ہے۔۔۔۔!! نہیں جناب، لکھنا لکھانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔۔۔ اس میں دماغی عرق ریزی کے ساتھ ساتھ ایک معقول وقت بھی صرف ہوتا ہے۔لکھنے والے کی سوچ بچار اور خون جگر کو تو آپ معاوضے کے کسی ترازو میں طول ہی نہیں سکتے۔۔۔ اب چاہے، وہ کوئی کہانی یا ادبی شہ پارہ ہو، یا کوئی مضمون، کالم یا بلاگ وغیرہ۔ ہر تحریر اپنا الگ مرتبہ رکھتی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس تحریر کے وقار کو پائمال نہ کریں اور لکھنے والے کو کتاب کے کسی بھی مرحلے کو پُر کرنے والے سے کہیں زیادہ عزت اور اہمیت دیں اور جائز معاوضہ دے کر اس کا اظہار کریں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں