تحریر: خورشید ندیم۔۔
کراچی کے عوام نے حافظ نعیم الرحمن کے ایجنڈے کو ووٹ دیے ہیں یا جماعت اسلامی کے نظریے کو؟ گوادر میں لوگوں نے ہدایت الرحمن پر اظہارِ اعتماد کیا ہے یا جماعت اسلامی پر؟ سیاسیات کے ایک طالبِ علم کے لیے یہ سوالات بہت اہم ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ ان کی اہمیت جماعت اسلامی کے لیے ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کی سیاسی کارکردگی ہمیشہ بہتر رہی ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں‘ جب بنگلہ دیش بھی پاکستان تھا‘ جماعت اسلامی نے کل چار نشستیں جیتیں۔ ان میں سے دو کراچی سے تھیں۔ دو مرتبہ کراچی میں جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات جیتے اور جماعت کے رہنما شہر کے میئر بنے۔ میئر بھی ایسے کہ لوگ آج بھی ان کی دیانت اور حسنِ کارکردگی کی گواہی دیتے ہیں۔ ملک کے کسی دوسرے حصے میں جماعت اسلامی اس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ انتخابات میں بھرپور انتخابی مہم چلانے کے باوجود عوام جماعت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ جماعت کے امیدوار شخصی اوصاف میں عام طور پر دوسری جماعتوں کے نمائندوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ لوگ اس کا اعتراف کرتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے۔ اس ناکامی کا بار عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کی اخلاقی بے حسی یا سیاسی بے شعوری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ کیا ان دو معاملات میں دیگر علاقوں کے مکینوں سے مختلف ہیں؟ وہ جماعت کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟
جماعت اسلامی اگر انتخابات میں ناکامی کے اسباب خارج میں ڈھونڈنے کے بجائے اپنے داخل میں تلاش کرتی تو آج اس کی سیاسی حکمتِ عملی کچھ اور ہوتی۔ عوام کا رویہ بھی مختلف ہوتا اور انتخابی نتائج بھی۔ جماعت اسلامی کا المیہ اس کے سوا بھی ہے۔ اگر کسی نے انہیں اس جانب توجہ دلائی تو انہوں نے ہر تنقید کو جماعت کی مخالفت سمجھا۔ جماعت میں عمومی سوچ یہی رہی ہے کہ تنقید اور خیر خواہی کا اجتماع نہیں ہو سکتا۔ یوں جماعت کے پالیسی ساز حلقوں میں کسی ایسی تجویز کو پذیرائی نہ مل سکی جو اس کی حکمتِ عملی کی کسی کمزوری کو بیان کرتی تھی۔
گزشتہ روز برادرِ محترم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب نے اپنے کالم میں جماعت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دعوت اور سیاست کو علیحدہ رکھے۔ استادِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب نے کم وبیش چاردہائیاں پہلے یہ بات کہی تو شدید تنقید کا ہدف بنے۔ میں نے 1990ء کی دہائی میں ”اشراق‘‘ میں اس پر تفصیلی مضامین لکھے۔ محترم نعیم صدیقی صاحب نے ایک جوابی مضمون میں یہ بتایا کہ تقسیمِ کارکی یہ تجویز جماعت اسلامی کی بربادی کا ایک نسخہ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس تحریک کو داخل سے نقصان پہنچایا جائے۔ یہ مضمون بھی ”اشراق‘‘ (اپریل 1993ء) میں چھپا۔ اگر اس وقت اس تجویز پر سنجیدگی سے سوچا جاتا تو آج جماعت کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج‘ بارِدگر جماعت کی قیادت کو اس کی حکمتِ عملی پر غور وفکر کی دعوت دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جب قائم ہوئی تو یہ ایک نظریاتی تحریک تھی جس کے پیشِ نظر ایک ہمہ جہتی تبدیلی تھی۔ علمی سطح پر اسلام کی تجدید کے ساتھ سیاسی وسماجی تبدیلی بھی جماعت کا ہدف تھی۔ یہ کام تین حصوں پر مشتمل تھا: تحقیق واجتہاد‘ دعوت اور سیاست۔ ان میں سے ہر کام ایک مختلف حکمتِ عملی کا تقاضا کرتا ہے۔ جماعت نے انہیں ایک قیادت اور نظم کے تحت کرنا چاہا۔ یوں دعوت‘ سیاست اور علمی تحقیق کے مختلف مطالبات ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو سکا۔
یہ تفصیل کا موقع نہیں۔ یوں بھی میں اس پر بہت لکھا جا چکا۔ ”اشراق‘‘ میں اس موضوع پر شائع ہونے والے میرے مضامین‘ میری کتاب ”اسلام اور پاکستان‘‘ میں شامل ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔ مولانا مودودی نے ”خلافت و ملوکیت‘‘ لکھی تو سیاست اور سماج میں ایک بھونچال آگیا۔ بہت سے علما نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کی کتابوں کا ذکر ایک محدود حلقے ہی میں ہوا۔ مولانا کا اسلوب دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ عالمانہ اور شائستہ تھا مگر اس کے باوصف وہ فتووں کی زد میں رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک سیاسی جماعت کے قائد کی کتاب تھی اور سیاست ایسے مباحث کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ علمی تحقیق اور عملی سیاست کے موضوعات اور مطالبات ایک دوسرے سے کہیں مختلف ہیں۔ انہیں ایک نظم کے تحت جمع نہیں کیا جا سکتا۔ یہی معاملہ دعوت کا بھی ہے۔ کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو طارق جمیل صاحب کی مثال کو سامنے رکھ لے۔ دعوت کے میدان میں انہوں نے جو عزت برسوں کی محنت سے کمائی‘ سیاست کی وادی میں قدم رکھتے ہی چند دنوں میں‘ وہ کچھ اس طرح ہوا میں تحلیل ہوئی کہ اب اس کا سراغ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ جماعت کی دعوت کو بھی اسی طرح سیاست کھا گئی۔ جماعت کا کارکن سیاست اور دعوت کے مطالبات میں الجھ کر رہ گیا۔
سیاست کے موضوعات کیا ہیں اور ریاست کیوں قائم ہوتی ہے؟ سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے اور اس کا تعلق ریاست کے وظائف سے ہے۔ ریاست اس لیے قائم ہوتی ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے اور شہریوں کو شخصی بالیدگی اور ارتقا کے لیے مساوی مواقع فراہم کرے۔ سیاست کسی نظریاتی تبدیلی کے لیے نہیں ہوتی۔ نظریاتی کام دعوت کا موضوع ہے۔ جو لوگ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ وہ ان کے جان اور مال کو تحفظ دے سکتے ہیں۔ ان کو روزگارکے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔ صحت اور تعلیم جیسے عوام کے بنیادی مسائل حل کر سکتے ہیں‘ لوگ انہی کو سیاسی قیادت کے لیے موزوں سمجھتے ہیں۔ کراچی کی جماعت اسلامی نے بنیادی عوامی مسائل کو اپنا کو ہدف بنایا۔ انہیں موقع ملا تو انہوں نے نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی کی قیادت میں ان کا حل فراہم کیا۔ اس لیے جب مقامی سیاست کی بات ہوئی تو لوگوں نے جماعت کو ترجیح دی۔ قومی سطح پر جماعت کا ایجنڈا اس سے مختلف ہے۔ وہ کبھی سود کے خلاف مہم چلاتی ہے۔ کبھی کشمیر اور فلسطین کے لیے نکلتی ہے۔ کبھی نفاذِ اسلام کی فکر میں پریشان دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب باتیں درست ہونے کے باجود عام آدمی کے ان سوالات کا جواب نہیں ہیں جن کے حل کے لیے وہ سیاسی قیادت کا انتخاب کرتا ہے۔ یوں وہ جماعت کی تعریف توکرتا ہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہی ہے لیکن جماعت کو ووٹ نہیں دیتا۔
سیاسی کامیابی کے لیے سماجی حقائق سے مطابقت پیدا کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ عوام کے مسائل کو مخاطب نہیں بناتے اور ان کا کوئی قابلِ عمل حل پیش نہیں کرتے تو لوگ آپ کی نیکی کی تحسین تو کریں گے‘ آپ کو سیاسی قیادت کے لیے اہل نہیں سمجھیں گے۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب نے کراچی کے مسائل کو مخاطب بنایا ہے۔ اسی طرح گوادر میں ہدایت الرحمن صاحب نے عوامی مسائل کی بات کی۔ اگر جماعت اسلامی سارے ملک میں اسی طرز کی سیاست کرے تو دیگر حصوں سے بھی اس کے حق میں نتائج آ سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کیا ایسا کر پائے گی؟ مجھے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ محترم خرم مراد اور قاضی حسین احمد مرحوم نے اس کی کوشش کی تو جماعت اسلامی کی تنظیم ان کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اس کے بعد شاید ہی کوئی یہ قدم اٹھا سکے۔ حکمتِ عملی میں تبدیلی کے لیے جماعت میں داخلی سطح پر غور وفکر کا آغاز ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک ہی بنیادی سوال کو موضوع بنانا چاہیے: کراچی کے عوام نے کس کو ووٹ دیا؟ نعیم الرحمن صاحب کے ایجنڈے کو یا جماعت اسلامی کے نظریے کو؟(بشکریہ دنیانیوز)
کیا جماعت ایسا کرپائے گی؟
Facebook Comments