kia investigation journalism ka khaatma hogya

کیا انویسٹیگیشن جرنلزم کا خاتمہ ہو گیا؟

تحریر: عمران ملک۔۔

ایک وقت تھا جب اخبارات کے رپورٹرز اداروں، سیاسی پارٹیوں کے دفاتر کا چکر لگاتے تھے، اندر کی خبر انکا مین ایجنڈا ہوتا تھا، اور پھر یہی اندر کی خبر سرخی بنتی اور رپورٹر کی واہ واہ ہو جاتی، اخبار کا قاری انتظار میں ہوتا اور جیسے ہی صبح اخبار آتا، وہ بھی کسی اسکینڈل، بڑی خبر کی تلاش میں ہوتا اور اگر کوئی اسکینڈل ناں ملتا تو دوسرے اخبار کو ڈھونڈھتا اور پھر جا کر تسلی ہوتی، اسوقت لفافوں کا دور نہیں تھا، رپورٹر کی سب سے بڑی جستجو اندر کی خبر ہوتی تھی، پیسوں کی پرواہ نہیں ہوتی تھی، تقریبا ہر ادارے سے دشمنی مول لے لیتا تھا لیکن خبر نہیں رکتی تھی، جنگ کے مقصود بٹ سب کو یاد ہونگے جو سینہ گزٹ کے نام کالم لکھتے اور اندر کی خبریں دیتے، مرحوم رحمت علی رازی بھی ہفتے میں ایک کالم لکھتے اور بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کی خبریں شیئر کرتے، دنیا کے رؤف کلاسرہ بھی کالم کم لکھتے لیکن اندر کے اسکینڈل نکال لاتے، اب دور یہ کے انہیں رپورٹرز کو اب پریس ریلیزز یا پریس کانفرنس کا سیارہ لینا پڑتا ہے، ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر خبریں بننا شروع ہو گئیں، پریس ریلیز سے پورا وی لاگ نکل آتا ہے، اندر کی خبر کی جستجو کو پیسے کی چمک نے ختم کر دیا اب سیاسی بیٹ کے رپورٹرز کو بنی بنائی خبر مل جاتی ہے، انٹرویو سے پہلے سوال مل جاتے ہیں، اللہ اللہ تے خیر صلا۔۔ (عمران ملک)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں