تحریر: علی حسن
بیک وقت تمام سیاسی جماعتوںکا عام انتخابات کے انعقاد پر زور ہے۔ تحریک انصاف فوری انتخابات چاہتی ہے۔ ن لیگ بھی کم و بیش یہی چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان البتہ اس حد تک تاخیر سے چاہتے ہیں کہ اسمبلی اپنی ائینی مدت پوری کر لے۔ سوال یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری معاشرہ میں انتخابات ہی وہ پیمانہ تصور کئے جاتے ہیں جو سیاسی جماعتوں کی مقبولیت بتاتے ہیں اور ان کی ایوان میں تعداد کے پیش نظر ان کی عدوی حیثیت کا تعین کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ملک اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان میں 1970 سے یہ ہی ہوتا آیا ہے جب اس ملک میں 1970 کے پہلے عام انتخابات میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کا طریقہ نافذ العمل ہوا تھا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ملک دو لخط ہو گیا تھا۔ اور بعد میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں کوئی قابل ذکر تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ بس یہ ضرور ہوا کہ اقتدار میں چہرے بدلتے رہے۔ لیکن عوام کے چہروں پر پھیلی ہوئی مایوسیاں ختم نہیں ہوئیں۔
حال ہی میں الیکشن کمیشن نے 2023 میں ہونے والے ممکنہ انتخابات کے اخراجات کا تخمینہ حکومت کو پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق 47ارب اور 41 کڑوڑ روپے کے اخراجات متوقع ہیں۔ 2018 میں جو انتخابات ہوئے تھے انتخابات کے انعقاد پر 23ارب روپے کے اخرجات آئے تھے ۔ جب تاجر کے پاس پیسے نہیں تھے تو اس نے اپنے بچے کو پانچ روپے کا طوطا خرید کر نہیں دیا تھا، تجارت سے واپسی پر بچے نے دوبارہ مطالبہ کیا تو تاجر نے وہ ہی طوطو پانچ سو روپے کا خرید کر بیٹے کا تھما دیا۔ بات یہ ہے کہ جب جیب میں پیسے ہوں تو خرچ کرنا اچھا لگتا ہے۔ جب ملکی خزانہ ہی خالی ہو تو کاہے کے انتخابت اور کیسے انتخابات۔ صرف اس لئے کہ جو کامیاب ہو حکومت اس کے حوالے کر دی جائے۔ وہ حکومت اسی صورت میں چلا سکیں گے جب انہیں آئی ایم ایف سے قرضہ ملے گا۔ کیا انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت یہ گارنٹی دینے پر آمادہ ہو گی کہ وہ کسی طرح کا کوئی قرضہ لئے بغیر ملک چلائے گی۔ اگر ایسا ہے تو فبی ہاہ ، الحمدللہ۔
اس کا ایک بظاہر حل ایک اور دوست نے دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں پر ہر سال بھاری رقم خرچ ہوتی ہے، آراکین سے تحریری ضمانت لے لی جائے کہ دو سال تک وہ اپنی کسی سہولت ، مراعت اور تنخواہ کا تقاضہ نہیں کریں گے۔ سوشل میڈیا پر کافی عرصہ سے ” جمہوریت کے اخراجات “ کے عنوان سے تفصیل گشت کر رہی ہے ۔ تفصیل کے مطابق قومی اسمبلی ، تمام صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ کے آراکین کی تن خواہوں کی مد میں ٹوٹل صرف تنخواہ سالانہ 35,54,70,00,000 ( ۵۳ ارب روپے)بنتی ہے۔ دیگر تمام مراعات پر آنے والے اخراجات علیحدہ ہیں۔ مختلف اجلاسوں کے اخراجات اوربونس ملا کر سالانہ خرچ 85ارب کے قریب پہنچ جاتا ہے۔اوراکثر یہ لوگ خود ٹیکس نہیں دیتے۔اپارلیمنٹ کے ارکان کو پنشن نہیں ملنا چاہئے کیوں کہ یہ نوکری نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک انتخاب ہے اور اس کے لئے ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی ہے مزید یہ کہ سیاستدان دوبارہ سے سیلیکٹ ہو کے اس پوزیشن پر آسکتے ہیں، مرکزی تنخواہ کمیشن کے تحت پارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ میں ترمیم کرنا چاہئے. ان کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر ہونی چاہیئے، ہاو ¿س رینٹ گاڑی گھر کےبل اورٹکٹ بیرون ملک دورے اور رہائش کی بلا معاوضہ سہولت کیوں ہونا چاہئے۔ (فی الحال، وہ اپنی تنخواہ کے لئے خود ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی سے من چاہا اضافہ کر لیتے ہیں* ممبران پارلمنٹ کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری ہسپتال میں ہی علاج کی سہولت لینا لازم ہو جہاں عام پاکستانی شہریوں کا علاج ہوتا ہے)، انہیں بیرون ملک قومی خزانہ سے علاج کے لئے رقم فراہم نہٰں کی جانی چاہئے) تمام رعایتیں جیسے مفت سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے یا یہ ہی تمام رعایتیں پاکستان کے ہر شہری کو بھی لازمی دی جائیں، ایسے ممبران پارلیمنٹ جن کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا جن کا ریکارڈ خراب ہو حال یا ماضی میں سزا یافتہ ہوں موجودہ پارلیمنٹ سے فارغ کیا جائے اور ان پر ہر لحاظ سے انتخابی عمل میں حصّہ لینے پر پابندی عائد ہو اور ایسے ممبران پارلیمنٹ کی وجہ سے ہونے والے ملکی مالی نقصان کو ان کے خاندانوں کی جائیدادوں کو بیچ کر پورا کیا جائے، پارلیمنٹ ممبران کو عام پبلک پر لاگو ہونے والے تمام قوانین کی پابندیوں پر عمل لازمی ہونا چاہئے، اگر عام لوگوں کو گیس بجلی پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو پارلیمنٹ کینٹین میں سبسایڈڈ فوڈ کسی ممبران پارلیمان کو نہیں ملنا چائیے، ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سیاستدانوں کے لئے بھی ہونا چاہئے. اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہونا چاہئے اگر میڈیکلی ان فٹ ہو تو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے پارلیمان میں خدمت کرنا ایک اعزاز ہے، لوٹ مار کے لئے منافع بخش کیریئر نہیں، ان کی تعلیم کم از کم ماسٹرز ہونی چاہئے اور دینی تعلیم بھی اعلیٰ ہونی چاہیئے اور پروفیشنل ڈگری اور مہارت بھی حاصل ہواور ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہو، ان کے بچے کو بھی لازمی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنا چاہئے، سیکورٹی کے لیے کوئی گارڈز رکھنے کی اجازت نہیں ہونا چاہئے،۔ عام اور آسان لفظوں میں ہمیں اپنے منتخب آراکین کو عام پاکستانی بنانا چاہئے، ہم انیں کیوں سپر پاکستانی بنا دیتے ہیں۔ پاکستان کے ایوانوں کا سرسری جائزہ بھی لیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ اکثریت ایسے افراد کی ہے جو حکومت کے خرچے پر ہی پل رہے ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے کہ ایک ہی شخص بار بار منتخب ہوتا رہے۔ اگر آراکین کا کوئی ٹیسٹ لیا جائے تو بہت سارے تو آئین اور عام قوانین سے ہی نا بلد نظر آئیں گے۔ اگر آراکین اور سیاسی جماعتوں کے قائدین انتخابات کے انعقاد کو ہی اس ملک کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں تو پھر ن لیگ اور پی پی پی کی قیاست سے تو گزارش کی جائے کہ وہ حکومت پاکستان کو ادھار کے طور پر انتخابات پر آنے والے اخراجات بطور قرضہ دے دیں۔ ملک کے معاشی حالات بہتر ہوتے ہی یہ رقم انہیں واپس لوٹا دی جائے گی۔ ماشاءاللہ سے دونوں رہنماﺅں کے پاس ”ٹنوں “ کے حساب سے دولت موجود ہے۔
ایک اور تجویز بھی سوشل میڈیا پر گردش میں ہے کہ انتخابات کی بجائے کم از کم پانچ سال کے لئے سپریم کورٹ کے کسی بھی سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں نگران حکومت قائم کی جائے ۔ اس حکومت میں ماہرین معیشت کو ضرور شامل کیا جائے، ایسے تاجروں کو شامل کیا جائے جو کسی حیل و حجت کے بغیر ملک کی بر آمدات میں اضافہ کرا سکیں ۔ایسے سابق جنریلوں کو شامل کیا جائے جو ملک میں امن و امان کو مستقل بنیادوں پر یقینی بنا سکیں۔ ایسے تعلیمی ماہرین کو شامل کیا جائے تو پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہتر کر سکیں اور روز گار کے نئت مواقعوں کی نشان دہی کر سکیں۔ ویسے بھی بہت معزرت کے ساتھ ہمارے وزراءکی اکثریت کرتی ہی کیا ہے۔ سارے کا سارا کام کو سرکاری دفاتر میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوئے آعلی افسران کے ماتحت افسران تجاویز تیار کر کے پیش کر دیتے ہیں۔ ماضی میں تو یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ وزیر صاحبان کو بتانا پڑا تھا کہ انہیں کیا لکھنا ہے اور دست خط کہاں کرنے ہیں۔ کسی بھی انتخابات کے نتیجے میں سردست کسی امیدافزاءتبدیلی کی رمق نظر نہیں آتی ہے۔ اگر تبدیل کی رمق بھی نظر نہیں آتی تو انتخابات کے انعقاد پر اتنی بھاری بھر کم رقم کیوں خرچ کی جائے، کسی حکیم نے تویہ نسخہ تجویز نہیں کیا ہے۔ (بہ شکریہ روزنامہ جہان پاکستان)