تحریر: ناصر جمال۔۔
میرے ایک بیوروکریٹ دوست کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں اشرافیہ اپنی قوم کو ’’پے بیک‘‘ کرتی ہے۔ مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔ یہاں کی اشرافیہ، چاہے وہ سیاسی ہو یا انتظامی، عسکری ہو یا کاروباری وہ صرف لینے پر یقین رکھتی ہے۔میں دیوانہ تو، کب سے لکھ رہا ہوں۔ پاکستان کی ایلیٹ کلاس نے کب سے اس ملک کو ’’ڈس اُوون‘‘ کردیا ہے۔ اس ملک کی کسی اچھے دودھ دینے والی گائے اور بھینس کی طرح، اچھے دن گنے جاچکے ہیں۔ اس لئے، اب اس کو ٹیکے لگا کر زبردستی دودھ حاصل کیا جارہا ہے۔ اور وہ دن زیادہ دور نہیں، جب یہ ٹیکوں سے بے پرواہ ہوگی تو، اسے کسی قصائی کے حوالے کر دیا جائے گا۔اس مملکت خداداد میں ریلیف صرف ایلیٹ کلاس کا حق ہے۔ جب یہ آپس میں لڑتے ہیں تو تکلیف میں آتے ہیں۔ البتہ یہ لڑیں یا نہ لڑیں بہر حال یہ طے ہے کہ عام آدمی کو کبھی ریلیف نہیں ملے گا۔
آپ آج دیکھ لیں، مریم نواز باعزت بری ہوگئیں۔ عمران خان کو اتواروالےدن ضمانت مل گئی۔ سوموار کو کیس ختم ہوگیا۔ اُسی روز مونس الٰہی بھی منی لانڈرنگ کے مقدمہ سے سرخرو ہوگئے۔باقی رہ گئے، سائفر وغیرہ تو یہ باہمی مُنہ کے ذائقے کی تبدیلی کے لئے ہیں۔ سپہ سالار’’امریکہ‘‘ میں ہیں۔ ویسے افریقہ میں بھی ہوں تو، قوم کو کیا فرق پڑتا ہے۔ جیسے انھیں اور ان کی اشرافیہ کو قوم کے حوالے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میں نہیں، حمید گل کہا کرتے تھے۔ پاکستان کے سپہ سالا ر کی منظوری کہیں اور سے آتی ہے۔ آپ گواہ رہیں کہ میں نے ’’بھی‘‘ امریکہ کا نام نہیں لکھا۔ اور نہ ہی میں بتائوں گا کہ امریکہ کا پاکستان میں کتنا اثرورسوخ ہے۔ آج امریکی سفیر، ہمارا وائسرے نہیں ہے۔ ’’ہم کیوں مان لیں، کیا ہم کوئی غلام ہیں۔‘‘ آخر ہم نے پانچ ماہ میں حقیقی آزادی جو حاصل کر ہی لی ہے۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے کسی ایک کنٹریکٹر کو افسر نے کہا تھا کہ ’’ٹھیکیدار، اللہ نے ہماری خدمت کے لئے پیدا کئے ہیں۔
میں آج، بڑے کھلے دل سےتسلیم کرتا ہوں کہ ہم بائیس کروڑ عوام بھی، اشرافیہ کی خدمت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اور یہ ملک گورے نے بنایا ہی ’’کالے گوروں‘‘ کے لئے تھا۔ کچھ گدھے آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک اُن کے لئے بنا تھا۔ ویسے اس ملک میںمیرے جیسے کیا کمال گدھے رہتے ہیں۔ جو آج بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ملک اس کے بزرگوں نے حاصل کیا تھا۔ جہاں عظیم آسمانی اصولوں کے تحت یہاں کوئی نظام تخلیق ہونا تھا۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو سمجھنے دیں۔ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اسے اپنا نظریہ انجوائےکرنے دیں۔ اور اگر آپ کے پاس مال پانی ہے تو زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ اور اس پر سوچیں کہ آپ نے ’’ایلیٹ کلب‘‘ کی رکنیت کیسے حصال کرنی ہے۔ اور کیسے ’’پرولیج کلاس‘‘ میں سروائیو کرنا ہے۔
میرا پاکستان کی اشرافیہ کو مشورہ تھا کہ بائیس کروڑ گدھوں کے لئے بھی کچھ تو ریلیف ہونا چاہئے۔ مگر اس حوالے سے اشرافیہ کی سوچ درست ہے کہ گدھوں کا ریلیف تو اور ڈنڈے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی پشت شریف پر یہ پڑتے ہیں۔ گدھوں کی پرفارمنس بڑھ جاتی ہ۔۔ وہ ذات کو بچانے کے لئے اور زیادہ محنت شروع کردیتے ہیں۔ پھر ان پر وسائل ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ویسے بھی اصول کی بات ہے کہ چندلاکھ، اس ملک پر کیسےبوجھ ہوسکتے ہیں۔ بوجھ تو وہ ہیں، جو کروڑوں میں ہیں۔ وہ اگر چند لاکھ لوگوں کو بھی نہیں پال سکتے تو یہ تو بہت بڑی زیادتی اور ظلم ہے۔ ان کے چند ہزار بزرگوں نے یہ ملک گورے سے آپ کو لے کر دیا ۔ آج وہ چند لاکھ ہی ہوئے ہیں۔ آپ ایک کروڑ سے بائیس کروڑ ہوگئے۔ بلکہ انھوں نے آپ کو ان کی کلاس میں شامل ہونے کے مکمل مواقع فراہم کئے۔ ان کے زریں اصولوں پر چلنے والوں کو ایلیٹ کلب میں شامل کر لیا۔ کوئی مزاحمت نہیں کی۔ بلکہ ہاتھوں، ہاتھ لیا۔
آپ ہی بتائیں۔ اس ملک کی ایلیٹ کلاس نے، کب آپ کو کہا کہ آپ ایمانداری سے کام کریں۔ ’’ہاتھ‘‘ نہ ماریں۔ وسائل نہ ہڑپ کریں۔ سچ بولیں۔سچ کی دُھونی، ایمانداری کا بھوت، دیانتداری کا جن، نظرت کا درد، خدمت کے مروڑ تو ،آپ کے پیٹ میں خود اٹھتے ہیں۔ انھوں نے کب کہا تھا کہ ’مولوی‘‘ کے پیچھے لگو، جب آپ باز نہیں آئے تو انھوں نے آپ کو آپ کی پسند کے لوگ، آپ کے پسندیدہ سانچے میں ڈھال کر دےدیئے۔ہاں، البتہ ان کا سافٹ ویئر اپنے کنٹرول میں رکھا۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ، وہ کبھی آپ کو ضیاء الحق دے دیتے ہیں۔ کبھی کیانی، کبھی نواز شریف، بے نظیر تو کبھی زرداری اور عمران خان کبھی آپ کو جسٹس منیر تو کبھی افتخار چوہدری اور ثاقب نثار دے دیتے ہیں۔ کبھی سعید مہدی تو کبھی فواد حسن فواد اور اعظم خان سے نواز دیتے ہیں۔کبھی سہگل تو کبھی میاں منشا، کبھی میاں عبداللہ تو کبھی کوئی ملک ریاض لاکھڑا کرتے ہیں۔ کبھی حمید گل تو کسی کو پرویز مشرف جیسی مخلف طبعیت کے جنرل دے دیتے ہیں۔
بقول کراچی والوں کے، ’’نام بتائو، لاش اٹھائو، بھائی نے کہا ہے‘‘ کسی کو بہترین قوم پرست تو کسی کو بہترین سردار اور خان دے دیتے ہیں۔ کسی کو چوہدری تو کسی رائو سے نواز دیتے ہیں۔ کسی کو قدرت اللہ شہاب تو کسی کو ممتازمفتی کا سودا بیچ دیتے ہیں۔ کسی کو نور جہاں تو کسی کو مہدی حسن، کسی کو عطاء اللہ عیسٰی خیلوی تو کسی کو منصور ملنگی،کسی کو الن فقیر تو کسی کو حدیقہ کیانی جیسی ’’ پلز‘‘ بیچ دیتے ہیں۔ بے سروں کو ٹانگوں سے گانے والے مہیا کردیتے ہیں۔
اس ملک میں اشرافیہ نے ہر چیز کی ’’بہتات‘‘ کر دی ہے۔ ایک سے ایک غنڈا، ایک سے ایک شریف، تاجی کھوکھر سے لیکر عبدالستار ایدھی ، طارق جیل سے لیکر حریم شاہ تک ہر طرح کا برانڈ دستیاب ہے۔ آصف غفور سے لیکر، فواد چوہدری، مریم اورنگزیب سے لیکر پنڈی بوائے شیخ رشید، شرجیل میمن سے لیکر، شہباز گل تک ، ہر طرح کا ترجمان میسر ہے۔ آپ کو اس قوم سے شریف سے مہا شریف، کرپٹ سے مہا کرپٹ ہر کیٹگری ملے گی۔ جونیجو سے لیکر یوسف رضا گیلانی، سب دستیاب ہیں۔ نوبل پرائز سے لیکر پرائز بائونڈ والوں تک سب کچھ ملے گا۔اگر نہیں ملے گا تو ’’ریلیف‘‘ نہیں ملے گا۔ اس کے نہ ملنے کی ذمہ دار ایلیٹ کلاس قطعاً نہیں ہے۔ اور نہ ہی اشرافیہ اس ملک پر بوجھ ہے۔ اس دھرتی پر بوجھ، بائیس کروڑوں کو، پتا نہیں، کب عقل آئے گی۔
’’جے بی دادا‘‘ کہتا ہے کہ یہ ملک نہیں اوایل ایکس ہے، سب بیچ دے۔۔ وہ طعنے مارتا ہے کہ 15 سال گزر گئے، تم لوگوں کو پتا نہیں کب عقل آئے گی۔ہمارے ایک سندھی کامریڈ کا کہنا ہے کہ سائیں، خرچی، صنف مخالف، انگور کی بیٹی، جب سے دنیا بنی حلال ہیں۔ بیڑا غرق ہو، اس مولوی کا، جس نے ان سمیت زندگی ہی حرام کر دی ہے۔
قارئین۔۔لہٰذا ابھی بھی وقت ہے کہ آپ تجدید عہد کرلیں۔ اشرافیہ کو کوسنے کی بجائے، اُن کے ہمرکاب ہوجائیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کے اقبال کیسے بلند ہوتے ہیں۔ کڑھنا بند کریں۔ اندر کی صفائی کریں اور اُس کے بعد چاہیں صفایا کردیں۔ اس کے بعد درجات میں اضافے دیکھیں۔ آپ کو اپنا گھر اور یہ ملک جنت نہ دکھائی دے تو پرانا سافٹ ویئر، فری میں اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا۔ ملک میں خزاں نہیں بہارہے۔ اپنا اینگل درست کریں۔۔۔۔ میں نے بھی اینگل درست کر لیا ہے۔ لہٰذا پہلے دو صفحات کو بکواس سمجھ کر نظر انداز کریں۔ اور مثبت سوچنے، دیکھنے اور سمجھنے کی عادت ڈالیں۔ اشرافیہ معاف کر دے۔ میں بھٹک گیا تھا۔(ناصر جمال)