سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کئے جانے کے خلاف ازخو د نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ اسد طور پر تشدد کا کیا بنا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسد طور پر تشدد کا مقدمہ درج ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے صحافی سے سوال کیا: اسد طور کیا آپ ملزمان کو پہچانتے ہیں؟ اسد طور نے جواب دیا کہ ملزمان سامنے آئیں تو پہچان سکتا ہوں، میرے فلیٹ پر ملزمان موبائل استعمال کرتے رہے لیکن جیوفینسنگ نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کا خاکہ اور فنگرپرنٹ آئی ایس آئی کیساتھ شیئر کیوں نہیں کیے گئے؟ ادارے کے پاس تو اپنے ملازمین کا مکمل ریکارڈ ہوگا، کیا اسد طور کا کیس فعال ہے یا سرد خانے کی نذر ہوگیا ہے؟صحافی اسد طور نے بتایا کہ سال 2021 میں دائر کی گئی پٹیشن میں مجھے ٹریپ کیا گیا تھا، تین سال پرانی درخواست سے خود کو الگ کر رہا ہوں لیکن جو حالیہ اعلامیہ ہے اس سے متفق ہوں۔ چیف جسٹس نے اسد طور سے سوال کیا کہ کیا آپ نے جھوٹے الزامات لگائے تھے؟ اسد طور نے جواب دیا کہ ایف آئی آر میں عائد الزامات پر قائم ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کیس بھلے نہ چلائیں ہم آپ کو بنیادی حقوق دلوائیں گے، آپ پر دباؤ ہے تو کیس واپس نہیں لینے دیں گے۔ اسد طور نے جواب میں کہا کہ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے، سال 2021 میں جب درخواست دائر ہوئی تو سمجھا تھا کہ مطیع اللہ جان بھی ساتھ ہیں، جس انداز میں کمرہ عدالت میں درخواست دی گئی وہ طریقہ کار درست نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جس انداز میں درخواست لگی اس سے میں بھی مطمئن نہیں ہوں۔