تحریر: عمیر علی انجم۔۔
کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔۔ فلم کا نام تو یاد نہیں آرہا لیکن اس کا ڈائیلاگ کانوں میں گونج رہا ہے ۔۔ڈائیلاگ کچھ یوں تھا کہ ”جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو ”۔یہ ڈائیلاگ ہمارے ”عظیم صحافتی رہنماؤں”پر بھی صاد ق آتا ہے جن کو ہم ”خوابوں کا سوداگر” بھی کہہ سکتے ہیں ،جنہوں نے ہم صحافیوں کے خواب فروخت کرکے جنت میں نہ سہی دنیا میں تو اپنے محل بناہی لیے ۔۔کوئی ان سے حساب مانگے ۔۔۔اپنے سوالوں کا جواب مانگے تو ان کے ماتھے شکن آلود ہوجاتے ہیں ،جیسے یہ ٹریڈ یونین رہنما نہیں اکبر اعظم ہیں اور عالی جاہ کو تو جانے ہی دیں ان کے ”درباری ” ان سے زیادہ نا خوش ہوتے ہیں ۔۔کہتے ہیں بات بھی نہ کرو لیکن ان کو کون سمجھائے کہ جب تک بات نہ کی جائے ۔۔۔بات بنتی ہی نہیں ہے ۔۔۔تو میرااپنے ان عظیم رہنماؤں سے سوال ہے کہ قبلہ !”جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کیا تھا”۔۔۔ہمارے منہ کا نوالہ چھین کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں اور دعوی کرتے پھرتے ہیں رہنمائی کا ،یہاں کہاں کا انصاف ہے ؟؟؟جب بازوؤں میں اتنی طاقت نہیں تھی تو یہ بھاری پتھر اٹھایا کیوں تھا ؟؟چوم کر رکھ دیتے کسی نے روکا تھا کیا ؟؟میں نے جب سے یہ تحریریں لکھنا شروع کی ہیں تو لوگ تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔۔۔ اور ان سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں آپ ہمارے دل کی بات کررہے ہیں لیکن ان کا حساب بالکل ایسا ہے جیسے کسی نے کہا تھا کہ ”سچ اچھا لیکن اس کے لیے کوئی اورمرے تو اچھا ”۔۔خیر بات کرتے ہیں اپنے عظیم رہنماؤں کی ۔۔۔اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے کیونکہ اگر یہ نہ ہوتے تو ہمیں کیسے علم ہوتا کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟؟ قرض کا عذاب کیا ہوتا ہے ؟؟ اور نہ ہی ہم ہائی بلڈ پریشر سے دل کے عارضے تک کی تکلیف محسوس کرسکتے تھے ۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ ایک دن مجھے میرے یہ سوالات مروادیں گے لیکن کسی کو تو ”انا الحق” کہنا ہوگا نا ۔۔۔سب ہی خاموش رہے تو مردوں کی اس بستی میں یہ ”گدھ” اسی طرح ہمارا گوشت نوچ کر کھاتے رہیں گے ۔۔۔۔میرے ذہن میں پھر سوال اٹھ رہے ہیں ۔۔۔۔میرے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں اور آپ کی اولادیں مہنگے نجی تعلیمی اداروں اور پھر وہاں سے غیر ملکی تعلیمی اداروں تک پہنچ جائیں تو دل کا دکھنا بنتا تو ہے نا۔۔۔۔نوکری سے میں نکالا جاؤں اور آپ کی گاڑی کا ماڈل بدل جائے تو پھر دل بیٹھ سا تو جاتا ہے نا ۔۔۔۔میرے عظیم رہنماؤں رہنمائی کا زعم ہے تو کشتیاں جلائیں نا ۔۔۔۔بے روزگار ہونے والے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے چھوڑیں نوکریاں اور آئیں یہ عہد کریں کہ جب تک ان کے گھروں میں چولہے نہیں جلیں گے اس وقت تک ہمارے لیے ایک لقمہ بھی حرام ہے ۔۔۔اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو علامہ اقبال کے الفاظ میں آپ کو یہی کہہ سکتا ہوں کہ ”عشق قاتل سے بھی ،مقتول سے ہمدردی بھی۔۔۔یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا ۔۔۔۔سجدہ خالق کو بھی ،ابلیس سے یارانہ بھی ۔۔۔۔حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا۔۔(عمیرعلی انجم)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)