تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،پارلیمنٹ میں آج سے چار سال قبل ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس نامی بل منظور کیا گیا تھا۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ بنیادی طور پر تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی جنس کا انتخاب اور اس شناخت کو سرکاری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں تسلیم کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ خواجہ سراؤں کے سکولوں، کام کی جگہ، نقل و حمل کے عوامی طریقوں اور طبی دیکھ بھال حاصل کرنے کے دوران امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ قانون مخنث افراد کو ووٹ دینے یا کسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا حق دینے، اور ان کی منتخب جنس کے مطابق وراثت میں ان کے حقوق کا تعین کرنے اور حکومت کو جیلوں یا حوالاتوں میں مخنث افراد کے لیے مخصوص جگہیں اور پروٹیکشن سینٹرز اور سیف ہاؤسز قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔2018میں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے اس بل کے تحت خواجہ سرا افراد کو ڈرائیونگ لائسنس بنوانے اور ہراسانی سے تحفظ کی سہولت ملے اور ان سے بھیک منگوانے والوں پر پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا بھی متعین کی گئی۔ٹرانس جینڈرز ایکٹ دراصل حقیقی خواجہ سراؤں کو تحفظ اور حقوق دلانے کیلیے پیش کیا گیا تھا۔ 2018 میں منظور ہونے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ انہیں قومی دھارے میں لانے کا سبب بنا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ قانون اس قدر اچھا ہے تو ہماری مذہبی جماعتیں اور دیگر طبقات اس کی مخالفت کیوں کررہے ہیں؟ دراصل ہوا کچھ یوں کہ اس قانون کی تشکیل کے دوران مادرپدر آزاد حلقوں نے اس میں کچھ غیر فطری اور متنازع شقیں شامل کرادیں۔ جیسے کہ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہاں سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی مرد کسی مرد سے شادی کرنا چاہے تو وہ نادرا میں جاکر ایک جھوٹا بیان حلفی جمع کرائے کہ مجھ میں عورت کی حسیات پیدا ہوچکی ہیں۔ نادرا بغیر کسی میڈیکل چیک اپ کے اس کے جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر اسے عورت کا شناختی کارڈ جاری کردے گا۔۔یعنی جو بل خواجہ سراؤں کے تحفظ کیلئے پیش کیا گیا تھا کہ معاشرے میں ان کی جو تذلیل کی جا رہی ہے اس کا مداوا ہو سکے اب اس کا مغربی مافیا کے
در پردہ اور مغرب سے متاثرہ افراد کی جانب سے غلط استعمال شروع کر دیا گیا ہے تا کہ معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دے کر مغرب کا ایجنڈہ پاکستان میں پھیلایا جا سکے۔
منٹو نے ہیجڑوں کی تین خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ محافظ تھے۔ دوسری خط نویس اور تیسری یہ کہ وہ قاصد بھی تھے۔ ہیجڑے۔کئی صدیوں تک درباروں اور اقتدارروں میں رہے ہیں۔۔ نواب آف اودھ پور نے محل کی پاسبانی کے لئے ہیجڑوں کی بٹالین بھی بنائی تھی۔ مغلوں سے سلطنت کیا چھنی۔ ہیجڑوں سے چھت چھن گئی۔ آج لوہاروں کو مغل کہا جاتا ہے اور خواجہ سراؤں کو کھسرے، بیچارے محل سے محلے میں آگئے ہیں۔کہتے ہیں کہ ملتان کا ایک خواجہ سراکسی لاہوری پہلوان سے لڑ پڑا‘ لڑائی کے دوران ملتانی خواجہ سرا نے لاہوری پہلوان کو دھمکی دی۔۔میں تمہارے ساتھ ”خوفناک“ سلوک کروں گا۔۔ پہلوان نے قہقہہ لگا کر جواب دیا۔۔تم خواجہ سرا ہو‘ تم میرے ساتھ ”خوفناک“ سلوک کیسے کرو گے؟؟۔۔ خواجہ سرا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا‘ وہ رکا‘ تھوڑا سا شرمایا اورپھر ہتھیلی پر ہتھیلی رگڑ کر بولا۔۔میانوالی میں میرے ماما جی رہتے ہیں‘ وہ ساڑھے چھ فٹ کے کڑیل جوان ہیں‘ میں انہیں بلاؤں گا‘ وہ تمہارے ساتھ ”خوفناک“ سلوک کریں گے“ پہلوان نے قہقہہ لگایا‘ خواجہ سرا کی گردن پر مکا مارا‘ خواجہ سرا نالی میں گر گیا اور پہلوان سائیکل پر بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔۔ بشری رحمن لکھتی ہیں۔۔ اکیس ویں صدی کے ہیجڑے شارع عام پر سرعام آنے سے نہیں گھبراتے۔ ان کی پھبن بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ غرارہ۔۔ شرارہ۔۔ ساڑھی۔۔ کیپری۔۔ کیولاٹ۔۔ پاجامہ‘ شلوار قمیض۔۔ ہر قسم کے ملبوسات سے مزین نکلتے ہیں‘ میک اپ ایسا جیسے کسی بیوٹی پارلر سے آ رہے ہوں‘ بندیا بھی۔۔ گجرا بھی۔۔ کجرا بھی۔۔ نفنرہ بھی۔۔ اور ادائیں بھی۔۔موٹر میں بزرگ بیٹھے ہوں تو فوراً حج کی دعا دیں گے۔میاں بیوی اور بچے بیٹھے ہوں تو بچوں کے سہرے گانے لگ جائیں گے۔جوان جوڑے کو دیکھ کر صاحبِ اولاد ہونے کی خوشخبری دیں گے۔اور اگر بھگوڑے عاشق معشوق کو پہچان لیں تو ان کا فنِ خطابت اور فنِ موسیقی چھلک اٹھتا ہے۔ یہ پہچان لیتے ہیں کہ ڈیٹ پر کون جا رہا ہے اور سلیٹ کس کی صاف ہے۔۔ پھر ان کا انگ انگ فنونِ لطیفہ کا اظہار کرنے لگتا ہے۔مرد انہیں دیکھ کر لُطف لیتے ہیں‘ عورتیں ناک منہ چڑھاتی ہیں‘ بچے تالیاں بجاتے ہیں۔باباجی نے ایک بار ہمیں لطیفہ سنایا کہ۔۔ایک ہیجڑہ الیکشن میں ووٹ مانگ رہا تھا،عوام نے پوچھا۔۔ اگر آپ الیکشن جیت گئے اور آپ کی حکومت بن گئی تو آپ ہمیں کیا دیں گے؟ہیجڑے نے کہا۔۔ جس کے گھر بھی کاکا پیدا ہوا،حکومت مفت ناچے گی۔
ہمیں یاد ہے کچھ عرصہ ایک نیوزچینل پر خاتون نیوز اینکر نے جب یہ تشویش ناک خبر بطور”بریکنگ“ دی کہ۔۔چمن میں خواجہ سرا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے 5 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ سننے والے حیران تھے کہ یہ کون سی وبا ہے جو بچوں کو ہلاک کررہی ہے!خاتون نے پہلے تو کھُسرے کی وبا کہا، پھر خیال آیا کہ کھسرا کہنے سے اس مخلوق کی دل آزاری ہوگی، چنانچہ کھسرے کا مہذب ترجمہ۔۔”خواجہ سرا“ کردیا۔۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ خاتون اینکر کو یہ معلوم تھا کہ کھسرے کا متبادل خواجہ سرا ہے ورنہ اب یہ لفظ عام نہیں رہا، زیادہ سے زیادہ ہیجڑا یا مخنث کہہ دیا جاتا ہے جس وبا کا ذکر تھا وہ”خسرہ“ ہے۔ایک بار ہم نے باباجی سے پوچھا۔۔ یہ لاہور میں خواجہ سرا، نہر کے کنارے کیوں کھڑے نظر آتے ہیں۔۔باباجی نے بغور ہماری طرف دیکھا پھر پراسرار سی لیکن مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے۔۔تاکہ وہ تروتازہ رہ سکیں۔۔ہم نے باباجی کا جواب سنا ان سنا کرتے ہوئے اگلا سوال داغا۔۔ تو پھر کراچی میں ٹریفک سگنلز پر کھڑے کیوں نظر آتے ہیں۔۔ باباجی نے برجستہ کہا۔۔تاکہ گاڑی والے تروتازہ رہ سکیں۔۔باباجی کے جوابات سن کر ہم نے انہیں کہا۔۔باباجی ایک تازہ لطیفہ سنئے۔۔باباجی ہمہ تن گوش ہوئے تو ہم نے کہا۔۔ایک ماہرِ نفسیات نے مریض سے کہا میں تصویر بناؤں گا تمہارے ذہن میں جو خیال آئے بتانا،ڈاکٹر نے دائرہ بنایا مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر نے تکون بنائی مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر نے چوکور بنائی مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر تپ گیا، غصے سے بولا۔۔ لگتا ہے تمہارے اعصاب پر جنس سوار ہے۔۔مریض نے معصومانہ لہجے میں کہا۔۔ آپ عجیب ڈاکٹر ہیں آپ خود فحش تصویریں بنا رہے ہیں اور مجھے کہتے ہیں میرے اعصاب پر جنس سوار ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جتنی ذمہ داری سے لوگ الٹی چپل کو سیدھا کرتے ہیں، اتنی ہی ذمہ داری سے خود سیدھے ہوجائیں تو دنیا جنت بن جائے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔