تحریر: جاوید چودھری۔۔
باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو کار صرف ایک سوال کا جواب چاہتا تھا ’’میں خوش کیوں نہیں ہوں‘‘ وہ پانچ لفظوں کے اس سوال کی پوٹلی اٹھا کر بابا جی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ باباجی لنگوٹ باندھ کر جنگل میں بیٹھے تھے‘ ساہوکار نے سوال کیا ’’میں خوش کیوں نہیں ہوں؟بابا جی نے سنا‘ قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’ تمہارے پاس قیمتی ترین چیز کون سی ہے؟‘‘ ساہوکار نے جواب دیا ’’میرے پاس نیلے رنگ کا ایک نایاب ہیرا ہے‘‘ بابا جی نے پوچھا ’’تم نے یہ ہیرا کہاں سے لیا تھا؟‘‘ ساہوکار نے جواب دیا ’’یہ ہیرا میری تین نسلوں کی کمائی ہے‘ میرے دادا حضور جو کماتے تھے‘ وہ اس سے سونا خرید لیتے تھے‘ دادا اپنا سونا میرے باپ کو دے گئے‘باپ نے جو کمایا اس نے بھی اس سے سونا خریدا اور اپنا اور اپنے والد کا سونا جمع کر کے میرے حوالے کردیا‘ میں نے بھی جو کچھ کمایا اسے سونے میں تبدیل کیا‘ اپنی تین نسلوں کا سونا جمع کیا اور اس سے نیلے رنگ کا ہیرا خرید لیا‘‘ بابا جی نے پوچھا ’’وہ ہیرا کہاں ہے؟
ساہو کار نے اپنی میلی کچیلی ٹوپی اتاری‘ ٹوپی کا استر پھاڑا‘ ہیرا ٹوپی کے اندر سِلا ہوا تھا‘ ساہوکار نے ہیرا نکال کر ہتھیلی پر رکھ لیا‘ ہیرا واقعی خوب صورت اور قیمتی تھا‘ ہیرا دیکھ کر باباجی کی آنکھوں میں چمک آ گئی‘ انھوں نے ساہو کار کی ہتھیلی سے ہیرا اٹھایا‘ اپنی مٹھی میں بند کیا‘ نعرہ لگایا اور ہیرا لے کر دوڑ لگا دی‘ ساہوکار کا دل ڈوب گیا‘ اس نے جوتے ہاتھ میں اٹھائے اور باباجی کو گالیاں دیتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ پڑا‘ بابا جی آگے تھے‘ ساہو کار‘ اس کی گالیاں اور اس کی بددعائیں باباجی کے پیچھے پیچھے تھیں اوران دونوں کے دائیں اور بائیں گھنا جنگل تھا اور جنگل کے پریشان حال جانور تھے۔باباجی بھاگتے چلے گئے اور ساہو کار ان کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا رہا‘ یہ لوگ صبح سے شام تک بھاگتے رہے یہاں تک کہ جنگل کا آخری کنارہ آ گیا‘ باباجی جنگل کی حد پر پہنچ کر برگد کے درخت پر چڑھ گئے‘ اب صورت حال یہ تھی‘ باباجی درخت کے اوپر بیٹھے تھے‘ ہیرا ان کی مٹھی میں تھا‘ ساہوکار الجھے ہوئے بالوں‘ پھٹی ہوئی ایڑھیوں اور پسینے میں شرابور جسم کے ساتھ درخت کے نیچے کھڑا تھا‘ وہ باباجی کو کبھی دھمکی دیتا تھا اور کبھی ان کی منتیں کرتا تھا‘ وہ درخت پر چڑھنے کی کوشش بھی کرتا تھا لیکن باباجی درخت کی شاخیں ہلاکر اس کی کوششیں ناکام بنا دیتے تھے۔
ساہو کار جب تھک گیا تو باباجی نے اس سے کہا ’’ میں تمہیں صرف اس شرط پر ہیرا واپس کرنے کے لیے تیار ہوں‘ تم مجھے اپنا بھگوان مان لو‘‘ ساہو کار نے فوراً ہاتھ باندھے اور باباجی کی جے ہو کا نعرہ لگا دیا‘ باباجی نے مٹھی کھولی‘ ہیرا چٹکی میں اٹھایا اور ساہو کار کے پیروں میں پھینک دیا‘ ساہوکار کے چہرے پر چمک آ گئی‘ اس نے لپک کر ہیرا اٹھایا‘ پھونک مار کر اسے صاف کیا‘ ٹوپی میں رکھا اور دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگا‘ باباجی درخت سے اترے‘ ساہوکار کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ہم صرف اس وقت خوش ہوتے ہیں جب ہمیں کھوئی ہوئی نعمتیں واپس ملتی ہیں‘ تم اپنی طرف دیکھو‘ تم اس وقت کتنے خوش ہو۔۔ساہوکار نے اپنے قہقہوں پر توجہ دی‘ تھوڑا سا سوچا اور اس کے بعد پوچھا ’’حضور میں سمجھا نہیں‘‘ باباجی نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیروں کی طرح ہوتی ہیں‘ ہم نعمتوں کے ہیروں کو ٹوپیوں میں سی کر پھرتے رہتے ہیں‘ ہم ان کی قدروقیمت بھول جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ایک دن ہم سے یہ نعمتیں چھین لیتا ہے‘ ہمیں اس دن پہلی بار ان نعمتوں کے قیمتی ہونے کا اندازہ ہوتا ہے‘ ہم اس کے بعد چھینی ہوئی نعمتوں کے پیچھے اس طرح دیوانہ وار دوڑتے ہیں جس طرح تم ہیرے کے لیے میرے پیچھے بھاگے تھے۔
ہم نعمتوں کے دوبارہ حصول کے لیے اس قدر دیوانے ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کو بھگوان تک مان لیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کو پھر ایک دن ہم میں سے کچھ لوگوں پر رحم آ جاتا ہے اور وہ ہماری نعمت ہمیں لوٹا دیتا ہے اور ہمیں جوں ہی وہ نعمت دوبارہ ملتی ہے ہم خوشی سے چھلانگیں لگانے لگتے ہیں‘‘ بابا جی نے اس کے بعد قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ تم صرف لیے اداس تھے کہ تم نے نعمتوں کے دوبارہ حصول کا تجربہ نہیں کیا تھا‘ تمہیں نعمتوں کی قدروقیمت کا اندازہ نہیں تھا‘ تم اب ان چیزوں‘ ان نعمتوں کی قدر کا اندازہ لگا چکے ہو جو تمہارے پاس موجود ہیں چناںچہ اب تم کبھی اداس نہیں ہو گے‘ تم خوش رہو گے‘‘۔
میں نے یہ واقعہ برسوں پہلے پڑھا لیکن یہ آج اچانک یاد آ گیا‘ یہ کیوں یاد آ گیا؟ اس کی وجہ گارڈین اخبار کی ایک ریسرچ تھی‘ اخبار کے ایک رپورٹر نے آخری سانس لیتے ہوئے مریضوں کی آخری خواہشات جمع کیں‘ یہ بے شمار مرتے ہوئے لوگوں سے ملا اور ان ملاقاتوں کی روشنی میں اس نے اپنی ریسرچ مکمل کی‘ ریسرچ کے مطابق مرنے والوں میں پانچ خواہشیں ’’کامن‘‘ تھیں‘ ان کا کہنا تھا ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی میں جو عنایت کیا تھا‘ ہم اسے فراموش کر کے ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہے جو ہمارے نصیب میں نہیں تھیں۔
اللہ تعالیٰ اگر ہماری زندگی میں اضافہ کر دے یا یہ ہمیں دوبارہ زندگی دے دے تو ہم صرف ان نعمتوں کو انجوائے کریں گے جو ہمیں حاصل ہیں‘ ہم زیادہ کی بجائے کم پر خوش رہیں گے‘‘ ان کا کہنا تھا‘ ہم نے پوری زندگی لوگوں کو ناراض کرتے اور لوگوں سے ناراض ہوتے گزار دی‘ ہم بچپن میں اپنے والدین‘ اپنے ہمسایوں‘ اپنے کلاس فیلوز اور اپنے اساتذہ کو تنگ کرتے تھے‘ ہم جوانی میں لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے اور ہم ادھیڑ عمر ہو کر اپنے ماتحتوں کو تکلیف اور سینئرز کو چکر دیتے رہے‘ ہم دوسروں کے ٹائر کی بلاوجہ ہوا نکال دیتے تھے‘ دوسروں کی گاڑیوں پر خراشیں لگا دیتے تھے اور شہد کے چھتوں پر پتھر مار دیتے تھے‘ ہم بہن بھائیوں اور بیویوں کے حق مار کر بیٹھے رہے۔
ہم لوگوں پر بلاتصدیق الزام لگاتے رہے‘ ہم نے زندگی میں بے شمار لوگوں کے کیریئر تباہ کیے‘ ہم اہل لوگوں کی پروموشن روک کر بیٹھے رہتے تھے اور ہم نااہل لوگوں کو پروموٹ کرتے تھے‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی مل جائے تو ہم عمر بھر کسی کو تکلیف دیں گے اور نہ ہی کسی سے تکلیف لیں گے‘ ہم ناراض ہوں گے اور نہ ہی کسی کو ناراض کریں گے‘‘ زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھے لوگوں کا کہنا تھا‘ ہماری مذہب کے بارے میں اپروچ بھی غلط تھی‘ ہم زندگی بھر لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے رہے‘ ہم انھیں دوزخی یا جنتی قرار دیتے رہے۔
ہم مسلمان ہیں تو ہم باقی مذاہب کے لوگوں کو کافر سمجھتے رہے اور ہم اگر یہودی اور عیسائی ہیں تو ہم نے زندگی بھر مسلمانوں کو برا سمجھا‘ ہم آج جب زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے دنیا کا ہر شخص ایک ہی جگہ سے دنیا میں آتا ہے اور وہ ایک ہی جگہ واپس جاتا ہے‘ ہم ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور قبر کے اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں‘ ہمیں اگر آج دوبارہ زندگی مل جائے یا اللہ تعالیٰ ہماری عمر میں اضافہ کر دے تو ہم مذہب کو کبھی تقسیم کا ذریعہ نہیں بنائیں گے‘ ہم لوگوں کو آپس میں توڑیں گے نہیں‘ جوڑیں گے۔
ہم دنیا بھر کے مذاہب سے اچھی عادتیں‘ اچھی باتیں کشید کریں گے اور ایک گلوبل مذہب تشکیل دیں گے‘ ایک ایسا مذہب جس میں تمام لوگ اپنے اپنے عقائد پر کاربند رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور دنیا میں مذہب کی بنیاد پر کوئی جنگ نہ ہو‘ آخری سانسیں گنتے لوگوں کا کہنا تھا‘ ہم نے زندگی بھر فضول وقت ضایع کیا‘ ہم پوری زندگی بستر پر لیٹ کر چھت ناپتے رہے‘ کرسیوں پر بیٹھ کر جمائیاں لیتے رہے اور ساحلوں کی ریت پر لیٹ کر خارش کرتے رہے‘ ہم نے اپنی دو تہائی زندگی فضول ضایع کر دی‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی ملے تو ہم زندگی کے ایک ایک لمحے کو استعمال کریں گے‘ ہم کم سوئیں گے‘ کم کھائیں گے اور کم بولیں گے‘ ہم دنیا میں ایسے کام کریں گے جو دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو آسان بنائیں۔
جو محروم لوگوں کو فائدہ پہنچائیں اور زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھے لوگوں کا کہنا تھا‘ ہم عمر بھر پیسہ خرچ کرتے رہے لیکن ہم اس کے باوجود اپنی کمائی کا صرف 30 فیصد خرچ کر سکے‘ ہم اب چند دنوں میں دوزخ یا جنت میں ہوں گے لیکن ہماری کمائی کا ستر فیصد حصہ بینکوں میں ہو گا یا پھر یہ دولت ہماری نالائق اولاد کو ترکے میں مل جائے گی‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی ملی تو ہم اپنی دولت کا ستر فیصد حصہ ویلفیئر میں خرچ کریں گے‘ ہم مرنے سے قبل اپنی رقم چیریٹی کر جائیں گے۔
یہ مرنے والے لوگوں کی زندگی کا حاصل تھا‘ یہ زندگی میں خوشی حاصل کرنے کے پانچ راز بھی ہیں لیکن انسانوں کو یہ راز زندگی میں سمجھ نہیں آتے‘ ہم انسان یہ راز اس وقت سمجھتے ہیں جب ہم موت کی دہلیز پر کھڑے ہوتے ہیں‘ جب ہمارے ہاتھ سے زندگی کی نعمت نکل جاتی ہے‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ اس کی آنکھ اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کی آنکھیں مستقل طور پر بند نہیں ہو جاتیں اور ہم میں سے زیادہ تر لوگ آنکھیں کھولنے کے لیے آنکھوں کے بند ہونے کاانتظار کرتے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔