باباجی فرماتے ہیں،انسان کی جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے وہ امیر ہوتا جاتا ہے،بالوں میں چاندی،دانتوں میں سونا،پتہ اور گردے میں قیمتی پتھراورکبھی نہ ختم ہونے والی گیس کا مالک بن جاتا ہے۔۔ کورونا کی دوسری لہر ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں دولت اور کورونا وائرس سے متعلقہ پابندیوں کے درمیان ایک گہرے تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ اس تحقیق میں امریکی تحقیق کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ امیر ہے وہ فیس ماسک پہننے اور سماجی فاصلے جیسی پابندیوں کا اتنا ہی زیادہ خیال رکھتا ہے۔ اس تحقیقاتی سروے میں ماہرین نے ایک ہزار شہریوں سے کورونا وائرس سے متعلقہ پابندیوں بارے سوالات پوچھے اور ان کا ان کی آمدنی سے موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے۔یہ سروے بالٹی مور کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ماہرین کی طرف سے کیا گیا جس کے نتائج میں معلوم ہوا کہ سالانہ 10ہزار پائونڈ یا اس سے کم آمدنی والے افراد کی نسبت امیر افراد کے کورونا وائرس سے متعلق پابندیوں پر عمل کرنے کا امکان 54فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ سروے میں شامل امیر لوگوں میں فیس ماسک پہننے اور سماجی فاصلے رکھنے سمیت دیگر پابندیوں پر عمل کرنے کی شرح غریبوں کی نسبت کہیں زیادہ پائی گئی۔
کسی بیمار کی عیادت کے جائیں تو امریکی کہتے ہیں۔۔گیٹ ویل سون۔۔عربی کہتے ہیں۔۔ اللہ شفا دینے والا ہے۔۔ برطانویوں کا کہنا ہوتا ہے۔۔ آپ کی جلد صحت یابی کے لئے خواہشمند ہیں۔۔ جب کہ ہماری قوم جب کسی مریض کی عیادت کے لئے جاتی ہے تو کہتے ہے۔۔ہمارے محلے میں بھی ایک بندہ اسی بیماری سے مرا تھا۔۔کہتے ہیں کہ ایک چوہا کسان کے گھر میں بل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں،چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے۔۔خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوہے دانی تھی۔۔خطرہ بھانپنے پر اس نے گھر کے پچھلے حصے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوہے دانی آ گئی ہے۔۔کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟مایوس چوہا یہ بات مرغ کو بتانے گیا۔۔مرغ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ۔۔جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔مایوس چوہے نے جا کر بکرے کو یہ بات بتائی توبکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا۔۔اسی رات چوہے دانی میں کھٹاک کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا۔۔ اندھیرے میں اس کی دم کو چوہا سمجھ کر کسان کی بیوی نے اس کو نکالا اور سانپ نے اسے ڈس لیا۔۔ طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا،حکیم نے اسے کبوتر کا سوپ پلانے کا مشورہ دیا،کبوتر ابھی برتن میں ابل رہا تھا۔۔خبر سن کر کسان کے کئی رشتہ دار ملنے آ پہنچے جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مرغ کو ذبح کیا گیا۔۔کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی،جنازہ اور موت ضیافت میں بکرا پروسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔۔ چوہا دور جا چکا تھا۔۔ بہت دور۔۔واقعہ کی دُم:اگلی بار کوئی آپ کو اپنے مسئلے بتائے اور آپ کو لگے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تو انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچیں۔۔ہم سب خطرے میں ہیں۔۔سماج کا ایک عضو، ایک طبقہ، ایک شہری خطرے میں ہے تو پورا ملک خطرے میں ہے۔۔ ذات، فرقہ اور طبقے کے دائرے سے باہر نکلیں۔۔ خود تک محدود مت رہیے۔۔ دوسروں کا احساس کیجئے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔’’مشکلیں تمہارا راستہ روکنے کے لیے نہیں بلکہ تمہیں تمہاری طاقت سے آشنا کرنے کے لیے آتی ہیں‘‘۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔