تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ایک تازہ خبر کے مطابق اقوام متحدہ کی دنیا کے سب سے خوش ترین ممالک کی فہرست میں اس سال بھی فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جب کہ افغانستان سب سے آخری نمبر پر ہے۔ڈنمارک، آئس لینڈ سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ بالتریب دوم سے پانچویں نمبر پر ہیں۔ اس سال سربیا، بلغاریہ اور رومانیہ نے بھی اپنا درجہ بلند کیا ہے تاہم لبنان معاشی بدحالی کے باعث خوش ترین ممالک کی فہرست میں افغانستان سے ایک نمبر پہلے یعنی 145 پر آگیا۔نام نہاد بڑی اور طاقتور عالمی قوتیں اس فہرست کے پہلے دس نمبر پر بھی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں رہیں۔ آسٹریلیا 12، جرمنی 14، کینیڈا 15، امریکا 16، برطانیہ 17 اور فرانس 20 ویں نمبر پر ہے۔فہرست میں پاکستان کا نمبر ہے 103 جب کہ بھارت کہیں پیچھے 136 ویں نمبر پر ہے۔ اس طرح پاکستان نے بھارت کو خوش ترین ممالک میں پیچھے چھوڑ دیا۔ دیگر ایشیائی ممالک میں بنگلادیش 99 ویں نمبر پر ہے۔چلیں پھر آج اپنی قوم پر بات کرکے آپ کو ’’خوش ترین‘‘ بناتے ہیں۔۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے، بچپن میں اردو کی ٹیچر نے جب سوال پوچھا کہ ’’خوش حال ‘‘ کسے کہتے ہیں تو پوری کلاس میں ہم نے ہی ہاتھ کھڑا کیا تھا ، ٹیچر نے ہمیں ’’دری‘‘ سے کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔۔(جی ہاں ہم نے بھی ٹاٹ والے سرکاری اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، جنہیں کراچی میں پیلا اسکول کہاجاتاتھا)۔۔ہاں بتائیں کسے کہتے ہیں؟؟ ہم نے جلدی سے کھڑے ہونے کے بعد بڑے معصومانہ انداز میں جواب دیا۔۔مس، جو اپنے حال پر خوش ہو،اسے خوش حال کہتے ہیں۔۔ٹیچر ہمارا جواب سن کر بے ساختہ ہنس پڑیں۔پھر انہوں نے بتایا کہ خوشحال کہتے کسے ہیں۔۔اور آج کل۔۔زندگی میں اتنا پیسہ کما کر کیا کرو گے؟ ایک دن سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانا ہے۔ایسا کہنے والے بھی ایک لیکچر کا دو لاکھ لیتے ہیں۔۔مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ ’’ہر روز اذانیں دینے کے باوجود مرغے کو مولانا صرف اور صرف پیشہ وارانہ رقابت کی وجہ سے ذبح کر دیتے ہیں‘‘۔ مولانا سے یاد آیا کہ ایک مچھر حسینہ کے سر، منہ اور ہاتھوں سے ہوتا ہوا جب سیدھا آکر مولانا کی دودھ پتی میں گرا تو وہ بولے ’’واہ بھئی واہ‘‘ عیاشی وہاں اور غسل یہاں۔۔ کچھ لڑکیاں انباکس میں اتنے اسلامی طریقے سے بات کرتی ہیں کہ سپارہ پڑھانے والی “آپا جی” یاد آ جاتی ہیں۔۔پانچویں کلاس میں جو لڑکیاں پاگل سی لگتی تھیں وہ آج کل لڑکے پاگل کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔۔اور خبردار ہوجائیں اگر آپ کا بیٹا کال آنے پرہیلو ہیلو کرتا کمرے یا گھر سے باہر نکل جائے تو سمجھ جائیں اس کی کسی’’ سہیلی ‘‘کا فون آیا ہے۔۔انسان کو اس وقت سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے،جب وہ گرل فرینڈ کیساتھ ہو اور اسے پڑوس کی وہ حسین لڑکی دیکھ لے جس پر وہ آجکل ٹرائی مار رہا ہو۔۔آپ کبھی سودا لینے بازار جائیں تو وہاں سبزی اور فروٹ بیچنے والے باآواز بلند آپ کا’’حساب‘‘ یعنی ’’ میتھ‘‘ ٹھیک کراتے نظرآتے ہیں، چونسہ امب لے لیو پچاس روپیہ کلو،سوروپے دے دو کلو،ڈیڑھ سو دا تین کلو۔۔
باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔کچھ لوگوں دیکھنے میں ڈالر جیسے لگتے ہیں پر اندر سے اوقات روپے جیسی ہوتی ہے۔۔۔تاج محل کو دیکھ کر شاہ جہاں کا پوتا کہنے لگا، آج ہمارا بھی بینک بیلنس ہوتا اگر ہمارا دادا عاشق نہ ہوتا۔ کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا کہ مشہور زمانہ مہنگے ریسٹورینٹس میں لائٹ کیوں دھیمی رکھی جاتی ہے؟ بھئی وہ اس لئے کہ اندھیرے میں پتہ نہ چلے کہ کس جانور کی بوٹی کھائی جارہی ہے۔۔معروف مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔بدصورت کی جو حرکت بدتمیزی کہلاتی ہے وہی حرکت اگر خوب صورت کرے تو ’’ادا‘‘ کہلاتی ہے۔۔ساری رات بچے کے رونے سے بیوی کو اتنا غصہ نہیں آتا جتنا شوہر کو مزے سے سوتے ہوئے دیکھ کر آتا ہے۔۔ایک فیصل آبادی کی شوگر جب چھ سو تیس آگئی تو فیصل آبادی نے بڑے معصومانہ انداز میں ڈاکٹر سے سوال کیا۔۔ڈاکٹر صاحب کہیں پچھلے مہینے کی بھی ساتھ لگ کر نہیں آگئی؟ ہمارے ایک دوست بڑی بڑی ہانکنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، ان سے آپ کوئی بات کریں آگے سے ان کا ایک ہی ردعمل دیکھنے کو ملے گا، یہ تو مجھے پہلے سے ہی معلوم تھا۔۔ ہم نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق سوال کیا توانہیں تحریک عدم اعتماد کے انجام کا پہلے سے ہی علم تھا۔۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ وزیراعظم کی پارٹی کے کافی بندے ٹوٹ چکے ہیں، اپوزیشن کے نمبرز گیم بہت مضبوط ہیں تو وہ کہنے لگے ۔۔ مجھے سب معلوم ہے، اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔۔ ہم نے کافی منتیں ترلے کئے کہ وہ دو وجوہات کیا ہیں پلیز بتا دیں، ایک گھنٹے کی مسلسل خوشامد کے بعد کہنے لگے۔۔ ایک کا مجھے ابھی پتہ نہیں ، دوسرا وقت آنے پر بتاؤں گا۔۔
یہ بھی اسی قوم میں ہوتا ہے کہ آپ کو رات تین بجے اچانک کوئی دوست موبائل پر فون کرتا ہے اورآپ کی غنودگی سے بھرپور آواز سن کر کہتا ہے۔۔ابے یار سو رہاتھا کیا؟ ۔۔۔ اب کیا رات کے تین بجے نائٹ کرکٹ میچ کھیلیں؟۔۔۔ بازار میں اچانک کوئی جاننے والا مل جائے تو وہ لازمی پوچھتا ہے۔۔ ابے یارتو یہاں کیا کررہا ہے؟۔۔۔ بھائی جمعہ پڑھنے گیا تھا وہاں بہت رش تھاتو سوچا ادھر ہی آجاؤں۔۔۔ اسپتال میں کوئی جاننے والا مل جائے تو لازمی سوال کرے گا خیریت تو ہے؟۔۔ اب اسپتال میں کیا ڈنر کرنے جاتا ہے کوئی؟۔۔۔۔سینما میں فلم دیکھنے جائیں تو وہاں بھی جاننے والے مل جاتے ہیں اور حیرت سے پوچھتے ضرور ہیں کہ یہاں کیا کرنے آئے ہو؟۔۔۔ بھائی جو تم کرنے آئے ہووہی ہم کرنے آئے ہیں، کیوں کہ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے ، جو تم کروگے وہی ہم بھی کریں گے۔۔سبزی والے کی دکان پر کوئی دوست مل جائے توحیرت کااظہار یوں کرے گا،اچھا تو سبزی خریدی جارہی ہے؟۔۔ جی جناب یہ بندہ سبزی بیچ رہا ہے، اگر نسوار بیچ رہا ہوتا تو لازمی پھر وہی خرید رہا ہوتا۔۔ہمارے پیارے دوست ایسے لوگوں سے بہت تنگ ہیں ، کہتے ہیں کہ۔۔مسجد میں جاؤ نمازیں پڑھو۔۔مارکیٹ جاکرشاپنگ کرو۔۔ اسکول و کالج جاکر تعلیم حاصل کرو۔۔ہرجگہ لوگ اس طرح حیرت سے سواگت کرتے ہیں جیسے ہم کوئی انوکھا کام کررہے ہیں۔۔ اسے تو اس بات پر بھی غصہ آتا ہے کہ جب وہ اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ تفریح کی غرض سے کہیں جاتا ہے تو وہاں بھی اسے جاننے والے مل جاتے ہیں،اور ہر بار کہتے ہیں۔۔ پہلے والی بھابھی زیادہ خوب صورت تھی۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔ چابی سے کان کھجانے میں احتیاط کریں، کہیں آپ اسٹارٹ نہ ہوجائیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔