hujoom mein ali hassn zardari

خرم اور وقار کی تلاش ضروری

تحریر: علی حسن۔۔

پاکستان کیا، دنیا بھر میں ہر بڑے قتل کی واردات میں سے دو تین کڑیاں گم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے قتل کے کیس سرد خانہ میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ یہاں گزرے دن کے بارے میں کسی کو بھی یاد نہیں رہتا ہے تو قتل کسی کو یاد رکھنے کی کیا ضرورت۔ پاکستان کے پہلے وزیر آعظم لیاقت علی خان کے قتل کی واردات میں جس شخص پر قتل کرنے کا الزام لگایا گیا اسے تو پولس نے موقع پر ہی ہلاک کردیا۔ رہی سہی کسر وہ جہاز جس میں تحقیقاتی رپورٹ لائی جارہی تھی حادثہ سے دوچار ہو گیا۔ میر مرتضی بھٹو اور ساتھیوں کے قتل ابھی تک بھول بھلیوں کے شکار ہیں حالانکہ واقعات سے آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے قتل کی کڑیا کہاں کہاں سے غائب ہیں ۔پہلے مرحلے میں متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او حق نواز کی ہلاکت ہو گئی ۔ کہا گیا کہ اس نے خود کشی کر لی ہے۔ پاکستان کے دو مرتبہ وزیر آعظم رہنے والی دنیا کی پہلی مسلمان خاتون مرحومہ بے نظیر بھٹو کو دن کی روشنی میں ہونے والے قتل کی کئی کڑیاں مٹا دی گئیں تھیں۔ حتی کہ جائے واردات کو بھی دھلوا دیا گیا۔ پھر بھلا اسکاٹ لینڈ پولس کیا کر سکتی تھی۔ اب ٹی وی چینل کے معروف اینکر اور صحافی ارشد شریف کے قتل کا معالمہ ہے۔ ان کے قتل کی کڑیاں بھی مٹانے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن اس وقت تک دو ایسی کڑیاں یا شہادتیں موجود ہیں جنہیں ارشد کے قتل کے پس منظر کے ساتھ ساتھ پس پشت سے پوری طرح آگاہی رکھتے ہوں گے۔ وہ لوگ خرم احمد اور وقار یا نقار احمد ہیں۔ خرم احمد تو ان کی موت کے وقت تک ان کی گاڑی میں موجود تھے۔ ان کی گاڑی چلارہے تھے۔ وقار کے فارم ہاﺅس میں انہوں نے قیام کیا۔ خرم ہوں یا وقار، دونوں پاکستانی ہیں، انہیں تلاش کرنا اور ان سے معلومات حاصل کرنا مشکل تو نہیں ہے اگر حکومت چاہے۔ انہیں تلاش کرنا، ان سے تفتیش کرنا بہت اہم ہے اس سے پہلے کہ وہ دونوں بھی قتل کر دئے جائیں۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کینیا پولس کرایہ کے قاتل کا کردار ادار کرنے کے لئے بھی مشہور ہے۔اگر ایسا ہے تو کینیا پولس کے ساتھ کون رابطہ میں تھا۔

بحث یہ ہے کہ ارشد شریف کو کیوں قتل کیا گیا یا کرایا گیا ؟ کئی ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات ہی قتل کے کی گھتیاں سلجھا سکتے ہیں وگرنہ ارشد شریف کا قتل بھی پاکستان یا دنیا میں ہونے والے کئی قتلوں کی طرح بھلا دیا جائے گا۔ارشد شریف ان رپورٹوں کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے جن کا تعلق پاکستان میں ہونے والی کرپشن سے تھا۔ وہ اپنی تمام تر صلاحیت کرپشن کی رپورٹوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پر صرف کرتے تھے ۔ کینیا دنیا بھر میں اس لئے بھی مشہور ہے کہ وہاں دنیا بھر خصوصا پاکستان، بھارت وغیرہ سے جو بھی سرمایہ کاری کی جاتی ہے ، اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ منی لانڈرنگ کا پیسہ یہاں لگایا جاتا ہے ۔ جب ارشد شریف کو کیس وجہ سے محسوس ہوا کہ ان کے لئے فلالحال پاکستان میں قیام کرنا ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے تو وہ چلے گئے۔ (پاکستان سے جانا ان کی خام خیالی تھی۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ انہیں یہیں رہنا چاہئے تھا )۔ انہوں نے دبئی جانے کا انتخاب کیا۔ جب وہ دبئی چلے گئے تو وہاں سے بھی انہیںدھکہ دے کر نکلوایا گیا۔ سوشل میڈیا پر خبریں ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ بلال بھٹو زرداری نے دبئی حکومت کو خط لکھ کر کہا کہ ارشد شریف کو اپنے ملک سے نکا ل دیں۔ ارشد شریف کسی بھی طرح سے کوئی بدنام زمانہ جرائم پیشہ شخص نہیں تھے۔ لیکن دبئی سے وہ نکلے تو کہاں جاتے۔ ان کے پاس کسی اور ملک کا ویزہ ہی نہیں تھا سو انہوں نے کینیا جانے کا انتخاب کیا یا کنیا جانا ان کے پروگرام کا حصہ تھا۔ پاکستان کی قومی دولت میں کی جانے والی کرپشن کے بارے میں کہانی پر وہ کام کر رہے تھے اس میں کینیا کو اہمیت حاصل تھی ۔ ممکن ہے کہ اسی لئے انہوں نے کینیا جانے کا انتخاب کیا ہو۔ کینا میں اسٹیل، شوگر، آٹو موبائل، وغیرہ وغیرہ میں ، کہا جاتاہے کہ بعض معروف پاکستانیوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔

 جب آپ کو کرایہ کے قاتل میسر ہوں اور آپ کے پاس پیسہ بھی ٹنوں کے حساب سے ہو تو کینا میں کسی کو بھی مروانا مشکل کام نہیں ہے۔ کیا ارشد شریف ایسی ہی کسی سازش کا شکار ہوئے؟ ایک چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک اور معروف صحافی اورسینئر اینکر محمد مالک پھٹ پڑے۔ ” صحافی ارشد شریف کی وفات پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی محمد مالک پھٹ پڑے ، کہا کہ ارشد شریف کون سا انقلاب ملک میں لے آیا تھا ، اس نے ایسا کیا کر دیا کہ وہ موت کا مستحق تھا۔ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کیا کہتا ہے ؟، اس کی بس ذاتی رائے تھی ، وہ صرف اپنی سوچ رکھتا تھا، اختلاف رائے سب کی ہی ہوتی ہے ، اس نے ایسا کیا کر دیا کہ وہ موت کا مستحق تھا؟۔ ارشد شریف سکیورٹی تھریٹ سے بیرون ملک گیا ، ہمیں جس کی امید نہیں تھی وہ ہو گیا۔سٹوری پر غور کریں سمجھ ہی نہیں آرہی ، کینیا میں جو ہوا اس پر بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں ، مجھے اس وقت بیٹھے ہوئے یقین ہے کہ ارشد کے فون نہیں ملیں گے ، فون میں سب کچھ ہے کہ وہ کس سے کیا بات کرتا تھا۔ مگر مجھے علم ہے کہ اس کے فون نہیں ملیں گے۔ کہتے ہیں کہ اچانک گولی چلی اور یہ اتفاق ہو گیا ، یہ اتفاق نہیں ہے کہ اسے دبئی سے دباو ¿ کے تحت نکالیں اور اس کے پاس ویزا نہیں ہے تو قطر ، سری لنکا اور کینیا بچ جاتا ہے جہاں وہ جا سکے اور آپ جانتے ہو وہ کہاں جا سکتے ہیں۔محمد مالک نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ پیڈ کلنگ (معاوضہ پر قتل )میں سب سے زیادہ بدنام کینیا کی پولیس ہے “۔کینیا پولس جو بھی کہانیاں گھڑ رہی ہے اس کے مطابق صرف غلطی یا حادثہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ صرف ایک گولی غلطی سے چلتی ہے یہاں تو نو گولیاں ماری گئی ہیں پھر ارشد شریف کا لیپ ٹاپ ، موبائل فون، اور بعض اہم کاغذات کیوں کر غائب ہوئے۔ کیا یہ بھی غلطی سے غائب ہوئے ہیں۔ خرم احمد اور وقار احمد کو ہی تلاش کرنا ہوگا ۔ ان ہی دونوں سے ارشد شریف کو قتل کرانے کے عوامل کے باے میں معلومات حاصل ہو سکیں گی۔ (علی حسن)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں