تحریر: جاوید چودھری۔۔
عمران خان کی پرویز خٹک اور صدر عارف علوی سے ناراضگی 18مارچ کو اسٹارٹ ہوئی‘ اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن کورٹ نے عمران خان کو18مارچ کو طلب کر رکھا تھا‘ عمران خان اس دن بھی عدالت نہیں جانا چاہتے تھے لیکن صدر عارف علوی اور پرویز خٹک نے انھیں راضی کر لیا‘ ان دونوں کا خیال تھا عمران خان کو ہر عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔
اس سے ان کے سیاسی قد میں بھی اضافہ ہو گا‘ میڈیا کوریج بھی ہو گی‘ کارکنوں کو بھی تحریک ملے گی اور حکومت بھی انگیج رہے گی‘ عمران خان کے وکلاء نے بھی انھیں کم از کم ایک بارایڈیشنل سیشن کورٹ میں پیش ہونے کا مشورہ دیا ‘بہرحال قصہ مختصر عمران خان راضی ہو گئے اور یہ ہزاروں کارکنوں کے ساتھ لاہور سے اسلام آبادکے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ اسلام آباد آ رہے تھے تو انھیں راستے میں اطلاع ملی انھیں جوڈیشل کمپلیکس میں قتل کر دیا جائے گاجس کے بعد یہ گاڑی اور کارکنوں کے درمیان ’’محفوظ‘‘ ہو کر بیٹھ گئے‘جوڈیشل کمپلیکس میں پولیس اور کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی‘ ڈنڈا بازی اور پتھراؤ ہوااور آخر میں جج ظفراقبال نے گاڑی میں عمران خان کی حاضری لگوائی اور عمران خان فوری طور پر کمپلیکس سے رخصت ہو گئے۔
عمران خان کی حاضری کا پیپر بعدازاں غائب ہو گیا‘ عمران خان کو آج بھی یقین ہے 18مارچ کو انھیں جوڈیشل کمپلیکس میں قتل کرنے کا منصوبہ تھا اور اگر یہ حالات کو بروقت نہ بھانپتے تو ان پر حملہ ہو جاتا‘ یہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں ان پر کسی پیشی کے دوران حملہ ہوگا اور ان کے سر کو نشانہ بنایا جائے گا۔ لہٰذا یہ ہر پیشی پر اپنے سر پر بلٹ پروف بالٹی اوڑھ کر عدالت میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے دائیں بائیں بھی حفاظتی شیلڈز ہوتی ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں 18 مارچ کو انھیں جوڈیشل کمپلیکس جانے کا مشورہ پرویز خٹک اور صدر عارف علوی نے دیا تھا چناں چہ یہ بھی ذمے دار ہیں‘انھوں نے جان بوجھ کر میری جان کو خطرے میں ڈالا لہٰذا عمران خان پرویز خٹک اور صدر عارف علوی سے دور ہو چکے ہیں۔
آپ کو مارچ کے بعد پرویز خٹک عمران خان کے قریب دکھائی نہیں دیں گے‘ انھیں اہم میٹنگز میں بھی شریک نہیں کیاجاتا‘ حکومت سے مذاکرات کو بھی پرویز خٹک یا اسد قیصر نے لیڈ کرنا تھامگر پھر اچانک ان دونوں کو نکال کر مذاکرات شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کے حوالے کر دیے گئے۔
24 اپریل کو پرویز خٹک کی اہلیہ کا انتقال ہوا‘ ن لیگ اور جماعت اسلامی کے لیڈرز تک تعزیت کے لیے پرویز خٹک کے گھر گئے لیکن عمران خان نے تعزیت کی اور نہ یہ اپنے دیرینہ ساتھی کے گھر گئے‘ کیوں؟ دوسرا صدر عارف علوی کے ساتھ بھی ان کی مارچ کے بعد ملاقات نہیں ہوئی‘ فون پر رابطے بھی منقطع ہیں ‘ صدر کو خان صاحب کے زیادہ تر پیغامات اب فواد چوہدری کے ذریعے موصول ہوتے ہیں۔
عمران خان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے یہ اپنے ساتھیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے‘ یہ اپنے قریب ترین ساتھی اور رشتے دار کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوتے اور یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے عمران خان نے پوری زندگی کسی کا جنازہ نہیں پڑھا ‘ یہ اپنے 35 سال پرانے دوست اور ساتھی نعیم الحق کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
یہ جنازوں سے کیوں پرہیز کرتے ہیں؟یہ بھی عمران خان کی زندگی کی بے شمار مسٹریز میں سے ایک مسٹری ہے‘خان صاحب دوسروں کو عزت دینے سے بھی الرجک ہیں‘ یہ صدر عارف علوی کوبھی عزت نہیں دیتے تھے‘ ساڑھے تین سال میں یہ جب بھی حلف برداری کی کسی تقریب میں شرکت کے لیے ایوان صدر گئے یہ عین وقت پر تقریب میں آئے۔
صدر سے ہاتھ ملائے بغیر اپنی کرسی پر بیٹھے‘ فنکشن ختم ہوا اور یہ صدر سے ہاتھ ملائے بغیر اٹھ کر نکل گئے جب کہ ایوان صدر کی پرانی روایات ہیں وزیراعظم تقریب کے بعد آدھ گھنٹہ صدرکے ساتھ بیٹھتا ہے‘ چائے پیتا ہے‘ شکریہ ادا کرتا ہے‘ تصویریں بنتی ہیں اور یہ اس کے بعد رخصت ہوتا ہے۔
عمران خان نے ساڑھے تین سال یہ تکلف نہیں کیا جب کہ 28ستمبر 2022کو میاں شہباز شریف ایوان صدر گئے تھے اور لاکھ اختلاف کے باوجود یہ فنکشن کے بعد صدر کے ساتھ چائے پر بھی بیٹھے اور ان کے ساتھ گپ شپ بھی کی‘ گویا ’’دشمن‘‘ وزیراعظم نے ’’دوست‘‘ وزیراعظم کے مقابلے میں صدر کو زیادہ عزت دی‘ صدر عارف علوی بدقسمتی سے اعتماد کی دولت سے محروم ہیں‘ یہ بے چارے آج تک اپنے وزیراعظم کا اعتماد حاصل کر سکے اور نہ انھیں اپنے زمانے کے دونوں آرمی چیفس کا اعتماد مل سکا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا معاملہ مختلف تھا‘ عمران خان اور جنرل باجوہ کی لڑائی میں صدر پستے رہے‘ انھوں نے معاملات درست کرنے کی بہت کوشش کی‘ یہ چھ مرتبہ خفیہ طور پر جنرل باجوہ سے ملے اور یہ دو مرتبہ ایوان صدر میں عمران خان کو جنرل باجوہ کے سامنے بٹھانے میں بھی کام یاب ہو گئے مگریہ اس کے باوجود عمران خان اور جنرل باجوہ دونوں کا ٹرسٹ حاصل نہ کر سکے۔
صدر کوشش کے باوجود اب تک موجودہ آرمی چیف سے رابطہ نہیں کر سکے‘ صدر کو 23 مارچ سے بہت توقعات تھیں‘ صدر کا خیال تھا 23 مارچ کو آرمی چیف کو مجھ سے ملاقات کرنی پڑے گی اور یوں دھاگے کا سرا ان کے ہاتھ میں آ جائے گا مگر 23 مارچ سے پہلے ہی خلیج میں اضافہ ہو گیا‘ ایوان صدر سے افواج پاکستان کے ریٹائر ہونے اور نئے آنے والے سربراہان کو فیملی سمیت کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔
یہ دعوت اس بار بھی دی گئی‘نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد کے اعزاز میں 16مارچ کوایوان صدر میں کھانا تھا‘ جنرل ساحر فیملی سمیت کھانے پر گئے‘ صدر نے انھیں کھانے کے بعد چائے کے دوران بتایا میرے پاس آرمی چیف کا موئل نمبر نہیں ہے‘ ملکی حالات بہت خراب ہیں‘ آپ درمیان میں پل کا کردار ادا کریں۔
جنرل ساحر نے یہ بات خاموشی سے سنی اور اس کے بعد موضوع گفتگو بدل دیا‘ صدر نے اس کے بعد آرمی چیف اور ڈی جی آئی کو بھی فیملی سمیت کھانے کی دعوت دی تھی لیکن پہلے ڈی جی آئی کی طرف سے معذرت آ گئی اور پھر جی ایچ کیو سے بھی معذرت کر لی گئی‘ صدر کی تمام تر توقعات اب 23 مارچ کی پریڈ سے وابستہ ہو گئیں۔
پریڈ اس مرتبہ ایوان صدر میں تھی‘ صدر کا خیال تھا آرمی چیف آئیں گے اور انھیں صدر کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنا پڑے گا اور یوں درمیان سے اجنبیت کی دیوار کھسک جائے گی لیکن 23 مارچ کی صبح بارش ہو گئی اور یوں پریڈ منسوخ ہو گئی اور یہ موقع بھی ضایع ہو گیا۔
تاہم عید پر پہلی مرتبہ تحائف کا تبادلہ ہوا اور شاید چند دنوں میں آرمی چیف کی صدر کے ساتھ پہلی باضابطہ ملاقات بھی ہو جائے لیکن اس ملاقات کا عمران خان یا پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ کیوں؟ کیوں کہ معاملات حد سے زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔
ہمیں یہاں عمران خان کی چند خوبیوں کا اعترف کرنا ہوگا‘ یہ شخص حقیقتاً حیران کن ہے‘ یہ تھکتا نہیں‘ پیچھے نہیں ہٹتا اور یہ اللہ تعالیٰ سے خصوصی مقدر بھی لکھوا کر لایا ہے‘ ملک کی 13 بڑی سیاسی جماعتیں مل کر اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں‘یہ سال بھر سے مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے بھی ٹکرا رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی ابھی تک اس کا کوئی توڑ ایجاد نہیں کر سکی۔
اس کی پاپولیرٹی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے اگرآج الیکشن ہو جاتے ہیں تو عمران خان دو تہائی اکثریت لے لے گاتاہم یہ حقیقت ہے عمران خان واپسی کے بعد ملک کا رہا سہا اسٹرکچر بھی ہلا کر رکھ دے گا‘یہ پھر کسی عہدیدار کو عہدے پر ٹکنے نہیں دے گا‘ افواج پاکستان کے سربراہ ہوں‘ چیف جسٹس ہوں‘ چیئرمین نیب ہوں یا پھر چیف الیکشن کمشنر ہوں ان کے پاس صرف ایک آپشن ہو گا۔
یہ شہباز گل کی طرح ہاتھ باندھ کر عمران خان کے پیچھے کھڑے ہوں یا پھر باقی زندگی جیل اور گھر میں گزاریں‘ ہم عمران خان کی افتاد طبع کو دیکھ کر آج یہ انکشاف بھی کر سکتے ہیں عمران خان میں عالمی جنگ چھیڑنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اس ’’کچھ‘‘ کے دوران یہ اپنا کچھ چھوڑتے ہیں اور نہ دوسروں کا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ ان کے صرف ایک سال کے فیصلے دیکھ لیں‘ انھیں صدر‘ پرویز خٹک اور جنرل باجوہ روکتے رہ گئے لیکن عمران خان نے عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے‘ یہ اگر11اپریل کو قومی اسمبلی نہ چھوڑتے تو یہ اپوزیشن لیڈر ہوتے اور اس حیثیت سے انھیں پروٹوکول اور سیکیورٹی بھی مل رہی ہوتی اور ان کے خلاف مقدمات بھی نہ بنتے‘ وہ تمام تقریریں جن کی وجہ سے ان کے خلاف غداری اور بغاوت کے مقدمات بن رہے ہیں یہ قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کرتے اور انھیں مکمل آئینی کور حاصل ہوتا اور یہ اس وقت تک دوبار حکومت بھی فارغ کر چکے ہوتے لیکن یہ استعفے دے کر بیٹھ گئے۔
آج یہ قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہتے ہیں لیکن گاڑی ایگزٹ سے بہت آگے جا چکی ہے‘ انھیں اسی طرح صدر‘ پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی نئے آرمی چیف کی تعیناتی میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے روکتے رہے مگر یہ نہ مانے اور آج حالات ان کے سامنے ہیں اور انھیں اسی طرح پرویز الٰہی اور محمود خان اسمبلیاں توڑنے سے بھی روکتے رہے لیکن عمران خان نہیں مانے اور آج یہ دونوں صوبوں میں حکومت کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ کے سامنے جھولی پھیلا کر بیٹھے ہیں۔
عمران خان کی سب سے بڑی خوبی ان کا نہ ماننا ہے اور ان کی سب سے بڑی خامی بھی یہی ہے‘ یہ جب اپنی آئی پر آتے ہیں تو انھیں ایٹم بم چلاتے ہوئے بھی افسوس نہیں ہوتا اور یہ اس وقت بھی یہی کر رہے ہیں‘ یہ روزانہ کی بنیاد پر خودکش ایٹمی دھماکے کر رہے ہیں اور نتیجے میں اپنے ساتھ ساتھ ملک کا بیڑا بھی غرق کر رہے ہیں‘ بس سپریم کورٹ بچی تھی‘ اب یہ بھی نہیں رہی لہٰذا آپ کو عن قریب سپریم کورٹ کے جج بھی پریس کانفرنس کرتے نظر آئیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)