تحریر: جاوید چودھری
’’علم کے ساتھ مقدر بھی چاہیے‘ تم خوش قسمتی کی دعا بھی کیا کرو‘‘ نوجوان نے حیرت سے میری طرف دیکھا‘ میں نے عرض کیا ’’بیٹا خلیفہ ہارون الرشید کہا کرتا تھا مقدر ہمیشہ علم سے بڑا ہوتا ہے‘ میں نے بڑے بڑے عالموں کو خوش قسمت جاہلوں کے پاس ملازم دیکھا ہے چنانچہ اللہ سے جب بھی مانگو مقدر مانگو‘ اللہ خوش قسمتی دے گا تو عقل اور علم خودبخود آ جائیں گے اور اگر گھر میںبدقسمتی کے ڈیرے ہوں گے تو عقل فساد بن جائے گی اور علم محرومی‘‘۔ نوجوان کے چہرے پر دکھ کے سائے پھیل گئے۔
وہ مجھے نالائق اور منافق سمجھ رہا تھا‘ اس کا خیال تھا میں ہمیشہ علم اور عقل کی تلقین کرتا ہوں لیکن جب اسے مشورے کی ضرورت پڑی تو میں نے اسے میمن اور شیخ برادری کی طرح خوش قسمتی کا درس دینا شروع کر دیا اور یہ میرا فکری تضاد ہے۔ میں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا‘میں نے اس سے عرض کیا ’’میں تمہیں دنیا کے چند لوگوں کی کہانیاں سناتا ہوں‘ ان لوگوں کے پاس عقل بھی تھی‘ محنت بھی اور علم بھی لیکن یہ لوگ مقدر سے مار کھا گئے چنانچہ آج دنیا میں کوئی شخص ان کے نام سے واقف نہیں جب کہ ان کی محنت‘ ان کے علم اور ان کی عقل سے فائدہ اٹھانے والوں نے دنیا میںدولت بھی کمائی‘ نام بھی اور شہرت بھی‘‘۔
میں نے نوجوان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا‘ نوجوان نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور دکھی آواز میں بولا ’’مثلا‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً تم بجارنی ہرجلف سن کو لے لو‘ اس شخص نے کرسٹوفر کولمبس سے 506 سال پہلے امریکا دریافت کر لیا تھا‘ یہ 986 میں گرین لینڈ کے لیے روانہ ہوا‘ راستے میں اس کا جہاز سمندری طوفان میں پھنس گیا‘ یہ روٹ سے ہٹا اور یہ امریکا کے ساحل پر پہنچ گیا‘ طوفان ختم ہوا تو اس نے خود کو عجیب دنیا میں پایا‘ اس کے سامنے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور گھنے جنگل تھے‘ یہ نئی دنیا دیکھ کرڈر گیا۔
اس کے ساتھیوں نے اس سے زمین پر اترنے کی درخواست کی لیکن بجارنی نہ مانا‘ اس نے جہاز موڑا اور واپس گرین لینڈ چلا گیا‘ اس نے واپسی پر اپنے دوست لیف ایریکسن کو اس عجیب وغریب زمین کے بارے میں بتایا‘ لیف ایریکسن کو تجسس ہوا‘ اس نے بجارنی کا بحری جہاز لیا‘ اس سے نقشے حاصل کیے اور یہ بھی امریکا پہنچ گیا لیکن تم قسمت کا ہیر پھیر دیکھو دنیا آج ان دونوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور وہ کرسٹوفر کولمبس جو 1492 میں انڈیا کا نیا راستہ تلاش کرتا ہوا امریکا پہنچااور یہ مرنے تک نئی دنیا کوانڈیا سمجھتا رہا دنیا آج اسے امریکا کا ’’فاتح‘‘ قرار دے رہی ہے‘یہ کیا ہے؟ کیایہ مقدر کا کھیل نہیں؟‘‘ نوجوان نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
میں نے عرض کیا ’’تم اب والٹر ہنٹ کو دیکھو‘ اس نے دنیا کو 25چیزیں دیں‘ اس نے سلائی مشین بنائی‘ اس نے ری پیٹنگ رائفل بنائی‘ اس نے فونٹین پین ایجاد کیا تھا اور اس نے سیفٹی پن بنائی لیکن یہ ایجادات پوری زندگی اس کے لیے مذاق بنی رہیں‘ وہ ان سے ایک وقت کا کھانا نہیں کھا سکا‘ اس نے 1834 میں سلائی مشین بنائی تو لوگوں نے یہ کہہ کر اس کی مشین مسترد کر دی ’’اس سے درزی بے روزگار ہو جائیں گے‘‘ وہ اس رائے سے دل برداشتہ ہوگیا اور اس نے سلائی مشین رجسٹر نہیں کرائی‘ اس نے فونٹین پین بنایا لوگوں نے اسے کھلونا قرار دے دیا۔
اس نے ری پیٹنگ رائفل بنائی‘ لوگوں نے اس کا بھی مذاق اڑایا اور آخر میں اس نے سیفٹی پن ایجاد کر لی‘ ہم سب والٹرہنٹ کی بنائی سیفٹی پن استعمال کرتے ہیں لیکن والٹرہنٹ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا‘ اس نے سیفٹی پن کی رجسٹریشن سو ڈالر میں بیچ دی تھی‘ خریدنے والوں نے اس سے اربوں روپے کمائے لیکن والٹرہنٹ 63سال کی عمر میں اپنی ورکشاپ کی میز پر خون تھوک کر مر گیا تھا‘ یہ کیا ہے؟ کیا یہ بدقسمتی نہیں‘‘ نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ میں نے اس سے عرض کیا ’’اور تم ٹیلی فون کی کہانی بھی سنو‘ یہ ٹیلی فون جرمنی کے ایک اسکول ٹیچر فلپ رئیس نے 1860 میں ایجاد کیا تھا۔
وہ اس کے ذریعے گھر بیٹھ کر اپنے طالب علموں کو لیکچر دیتا تھا‘ اس آلے کو ٹیلی فون کا نام بھی فلپ رئیس ہی نے دیا تھا‘ وہ اس پر برسوں کام کرتا رہا جب ٹیلی فون خوبصورت شکل میں آ گیا تو اس نے جرمنی کے چوٹی کے سائنس دانوں کے پاس بھجوایا لیکن سب نے اسے کھلونا کہہ کر گودام میں پھینک دیا‘ اس وقت ایلیشا گرے نام کا ایک دوسرا سائنس دان بھی ٹیلی فون پر کام کر رہا تھا‘ وہ بھی کامیاب ہو گیا لیکن اسے یہ آلہ سائنسی لحاظ سے شاندار مگر بزنس کے پوائنٹ سے فضول دکھائی دیتا تھا چنانچہ اس نے ٹیلی فون بنا کر دوستوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیے۔
ٹیلی فون کے پہلا موجد فلپ رئیس کو ٹی بی ہوئی اور وہ 1874 میں انتقال کر گیا۔ گراہم بیل ان دنوں ٹیلی گراف کو بہتر بنانے پر کام کر رہا تھا لیکن اس نے بھی اتفاقاً ٹیلی فون ایجاد کر لیا‘ وہ 1876 میں اپنی یہ ایجاد لے کر رجسٹریشن آفس پہنچ گیا اور اسے ’’پیٹنٹ‘‘ کرا لیا۔ ٹیلی فون کا دوسرا موجد ایلیشا گرے بھی اسی دن رجسٹریشن آفس گیا لیکن یہ گراہم بیل سے دو گھنٹے لیٹ ہو گیا چنانچہ ٹیلی فون کی عزت اور دولت دونوں گراہم بیل کے حصے میں آ گئی ‘ کیا یہ فلپ رئیس اور ایلیشا گرے کی بدقسمتی نہیں تھی؟‘‘ نوجوان نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
میں نے عرض کیا ’’تاریخ ایسی بے شمار داستانوں‘ ایسی ہزاروں لاکھوں کہانیوں سے بھری پڑی ہے‘ یہ لوگ عالم بھی تھے‘ عامل بھی ‘محنتی بھی‘ مخلص بھی ‘ جرات مند اور بہادر بھی اور ان لوگوں نے اپنے مقصد کے لیے جانیں بھی دیں لیکن ان کے پاس مقدر نہیں تھا‘ یہ خوش قسمت نہیں تھے چناںچہ ان کی تیار فصلیں کھیتوں میں کھڑی رہ گئیں اورخوش قسمت لوگ راہ چلتے خوشی‘ کامیابی ‘ شہرت اور نصیب سمیٹ کر گھر چلے گئے اور ان کی نسلوں تک کا مقدر بدل گیا۔ میں علم کا حامی ہوں‘ میں محنت کی عظمت کا بھی داعی ہوں اور میں عقل کو قدرت کا بہت بڑا معجزہ بھی سمجھتا ہوں۔
یہ عقل ہے جو انسان کو جانوروں کی سطح سے بلند کرتی ہے‘ یہ محنت ہے جو لوہے کو سونے کی شکل دیتی ہے اور یہ علم ہے جو انسان کو خدا تک لے جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم مقدر کے عنصر کو زندگی سے نہیں نکال سکتے‘ یہ مقدر ہے جو ایک ہی کان میں پڑے پتھروں میں سے کسی کو کوئلہ بنا دیتا ہے اور کسی کو ہیرا۔ جو ایک ہی غار کی دھات کو لوہے کی شکل دے دیتا ہے اور اسی غار میں پڑی دھات کو سونا بنا دیتاہے۔
لوہے اور سونے کے فرق اور کوئلے اور ہیرے کے ’’ڈفرنس‘‘ کو مقدر کہا جاتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سے جب بھی مانگو مقدر مانگو کیونکہ لوہا چاہے جتنا بھی مضبوط‘ چمک دار اور شان دار ہو جائے وہ لوہا ہی رہتا ہے اور سونا خواہ کتنا ہی میلا‘ پرانا اور گندا کیوں نہ ہو جائے یایہ نالی ہی میں کیوں نہ گر جائے یہ سونا ہی رہتا ہے‘ دنیا کا کوئی علم‘ دنیا بھر کی مشترکہ محنت اور ساری خلق خدا مل کر بھی لوہے کو سونا نہیں بنا سکتی اوردنیا بھر کے حاسدین مل کر بھی سونے کو لوہے کے لیول تک نہیں گرا سکتے‘‘۔
نوجوان نے میری بات سے اتفاق کیا لیکن تھوڑی دیر سوچ کر پوچھا ’’انسان اگر بدقسمت ہو‘ اگر اس کی سیدھی ہمیشہ الٹی پڑتی ہو‘ اگر اس کا یکا ہمیشہ ستے سے مار کھا جاتا ہو اور اس کا بادشاہ اگر ہمیشہ پیادے سے پٹ جاتا ہو تو اس کو پھر کیا کرنا چاہیے‘‘ میں نے قہقہہ لگایا‘ نوجوان کی بات واقعی قابل غور تھی‘ دنیا میں آخر بدقسمت لوگ بھی ہوتے ہیں‘ یہ بدقسمت لوگ کیسے زندگی گزاریں‘ یہ کیا کریں؟یہ دنیا کا مہنگا ترین سوال ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ کوئی ناقابل حل معمہ ہے‘ آپ بدقسمتی کو بڑی آسانی سے خوش قسمتی میں تبدیل کر سکتے ہیں‘آپ بس اللہ سے دعا کریں اور محنت کو زندگی بنا لیں‘ یہ دونوں مل کر کھوٹے سکے کو کھرا بنا دیں گی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔