تحریر: اقبال ہاشمی۔۔
ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیراں نوں جپھے یعنی ذات کی کوڑھی چھپکلی اور شہتیروں سے بغل گیری۔ یہ مثال اگر کسی پر من و عن صادق آتی ہے تو وہ ہے انڈیا۔ سوا ارب والی آبادی کے اس ملک میں غربت اپنی انتہا پر ہے اور اسی کروڑ ابادی کو باتھ روم تک میسر نہیں ہیں۔لیکن اس کے لیڈر ملک کو روس’ امریکہ اور چین کی برابری کرتے ہوئے چاند پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ انجینئرنگ کی فیلڈ میں انڈیا کی ناکامی کی ایک ہزار داستانوں میں سے ابھی تازہ ترین یہ ہے کہ انڈیا دوسری دفعہ چاند پر پہنچنے میں اس وقت ناکام ہو گیا جب کہ دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا، یعنی تین لاکھ چوراسی ہزار تین سو اٹھانوے کلو میٹر کا فیصلہ تو ان کے چندریان دو نے طے کرلیا لیکن فقط دو کلو میٹر کی جدائی پر جب لینڈر وکرم کو چندریان دو نے روانہ کیا تو اس کا رابطہ زمین سے منقطع ہو گیا اور گمان غالب یہی ہے کہ وکرم نے لینڈنگ تو کرلی ہے لیکن چاند پر کریش لینڈنگ کی ہے۔
وکرم چندریان کی گود سے تو نکل گیا لیکن محبوب سے ہم آغوش ہونے کی حسرت ناتمام دل میں لے کر محبوب کے قدموں میں ہی ڈھیر ہو گیا۔ مودی جی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں اور مشن کا انچارج تو مودی جی کے کندھوں پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔خیر،مودی جی نے آٹھ سو کروڑ کے اس نقصان پر اپنے آنسو پونچھے’ قوم سے خطاب کا پروگرام منسوخ کیا اور بوجھل قدموں اور بجھے دل کے ساتھ ہنچاوتی کی جانب روانہ ہو گئے۔۔۔
اگر ہندوستان کی دوسری مرتبہ اس میدان میں ناکامی کا جائزہ لیا جائے تو چاند پر پہنچنے کی ان کی یہ دوسری ناکام کوشش بلا شبہ ایک انتہائی فلاپ مشن کے طور پر جدید سائنس کی تاریخ میں یاد رکھی جائے گی کیونکہ روس ساٹھ سال قبل لیونا ٹو چاند پر بھیج چکا ہے اور امریکہ پچاس سال قبل اپولو الیون بھیج کر چاند پر چہل قدمی بھی کر چکا ہے۔ چائنا بھی اس میدان میں کامیابیاں سمیٹ چکا ہے۔ انڈیا اپنے بل بوتے پر یہ کارنامہ کب سر انجام دے پائے گا؟ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ انیس سو چوراسی میں روس نے ترس کھا کر ایک ہندوستانی ونگ کمانڈر راکیش شرما کو اپنی چاند گاڑی پر لفٹ دے کر چاند تک پہنچا دیا تھا اور یہ وہ کارنامہ ہے جس پر ہندوستانی آج بھی بغلیں بجاتے ہیں۔
اگر ہندوستان کے اس مشن کو بغور دیکھا جائے تو یہ سائنس کے میدان میں ایک ایسی ناکامی ہے جس کی کوئی دوسری نظیر اگر مل سکتی ہے تو ہندوستان میں ہی مل سکتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب روس اور امریکہ نے مہ پیمائی کی تھی تو واقعی کمال کیا تھا کیونکہ اس زمانے میں آج جیسی نہ ٹیلی کمیونیکیشن میں ترقی تھی اور نہ روبوٹکس میں اور نہ مٹیریل انجینئرنگ میں۔ آج کے دور میں تو خلائی جہاز بنانے کے لئے نوے فیصد سامان بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہے۔ انڈیا نہ خلائی جہاز صحیح ڈیزائن کرسکا’ نہ اسے صحیح اسمبل کر سکا اور نہ اسے صحیح طور پر چاند تک پہنچا سکا۔ انڈیا کی انجینئرنگ میں نالائقی کا یہ انکشاف نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے یورپ اور امریکا کے سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری کر کر کے تھک گئے لیکن ہندوستانی انجینئر مینوفیکچرنگ کو سنبھالنے میں تواتر سے ناکام رہے اور مجبوراً انہیں ساری مینوفیکچرنگ کو بادل ناخواستہ چائنا شفٹ کرنا پڑا۔ ہندوستان کی سوفٹ ویئر سیکٹر میں برآمدات کا جو چرچا ہے اس میں سے اسی فیصد سے زائد کام بہت نچلے درجے کا ہے مثلا میڈیکل اینڈ لیگل ٹرانسکرپشن’ اکاؤنٹنگ کے اندراجات’ پروگرام کوڈنگ اور کال سینٹرز وغیرہ۔ اگر وہ اس فیلڈ میں بہت بڑے طرم خان ہیں تو ان کی اس میدان میں کوئی بڑی ایجاد بتا دیں؟ پاکستان میں بھی سوفٹویئر سیکٹر میں بہت کام ہو رہا ہے اور نسبتا زیادہ بہتر لیول کا کام ہو رہا ہے لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ پاکستانی بزنس مین امریکہ میں ہی آؤٹ سورسنگ کی قیمت وصول کر لیتے ہیں اور اس طرح پاکستان کی اس سیکٹر میں ایکسپورٹ بہت کم نظر آتی ہے۔
ہندوستانی بہت زیادہ چالاک لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا دماغ وہاں تک جاتا ہے جہاں کی ہم سوچتے بھی نہیں ہیں۔ ان سے زیادہ کسے اپنی انجینئرنگ کی قابلیت کا پتہ ہوگا۔ لہذا انہوں نے اس مشن پر انسانوں کی بجائے روبوٹس بھیجنے کو ترجیح دی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں خود چاند پر کامیابی سے پہنچنے کا کتنا یقین تھا؟ کیونکہ جو یقین کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں وہ بلاشبہ کشتیاں جلا کر آگے بڑھتے ہیں۔نریندر مودی اصل میں ایک شیطانی دماغ کا نارسسٹ لیڈر Narcissist Leader ہے۔ اس قسم کے لیڈر بڑے بڑے ناقابل عمل پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں اور جب یہ پروگرام ناکام ہو جاتے ہیں تو اس کا ملبہ کسی اور پر اور ہندوستان کے کیس میں پڑوسی پر ڈال دیتے ہیں۔ مجھے بالکل حیرت نہیں ہوگی اگر اس چندریان دو کی ناکامی کا سارا الزام کل کو نریندر مودی آئی ایس پر ہی دھر دیں کہ پاکستان نے ان کے ساتھ فضائں دہشت گردی کی ہے اور پاکستانی حسب عادت دفاعی پوزیشن اختیار کریں گے کہ ہم اس معاملے
میں تحقیقات کرکے حقائق جلد دنیا کے سامنے رکھیں گے۔۔(اقبال ہاشمی)۔۔۔