تحریر: خرم علی عمران
کچھ لوگ بڑے عجیب ہوا کرتے ہیں اور ہر دلعزیزی کی ہر تعریف پر پورا اترا کرتے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو واقعی ان کا خلا پھر رسمی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر پورا نہیں ہو پاتا۔ ہمارے ہر دلعزیز شاعر، ادیب ،کمپیئر اور اداکار جناب طارق عزیز جن کو مرحوم لکھتے ہوئے یقین مانیں کہ دل بھاری ہو رہا ہے بھی ایسے ہی افراد میں سے تھے۔ مرحوم شاعر جمال احسانی کا ایک لازوال شعر ہے کہ ؎ چراغ بجھتے جارہے ہیں سلسلہ وار، میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی بہت تعلق ہوا کرتا ہے ،جو جب تک نظروں کے سامنے رہتے ہیں ہم سب لاشعوری طور پر ان کی موجودگی سے مطمئن رہا کرتے ہیں لیکن جب وہ چراغ بجھ جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریکی اور بڑھ گئی اور دل اداس ہوجاتا ہے تو طارق عزیز مرحوم بھی ایسے ہی نادر و روز گارافراد میں بلا جھجھک شمار کئے جاسکتے ہیں ۔ ان کی ویسے تو سب سے بڑی پہچان نیلام گھر بنا جو پی ٹی وی کی تاریخ کا سب سے طویل چلنے والا کوئز اور گیم شو تھا اور اگر طارق عزیز صاحب کو اس طرح کے شوز کا پاکستان میں بانی کہا جائے تو میرے خیال میں بے جا نہیں ہوگا۔ جو دنیا میں آیا ہے اسے تو جان ہی جانا ہے اور موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے لیکن بڑے خوش بخت و خوش انجام اور حسن خاتمہ کے حامل ہوا کرتے ہیں وہ لوگ جن کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ہزاروں لاکھوں زبانیں ان کے لئے دعاء خیر و مغفرت کرتی اور بے شمار ہاتھ دعا کے لئے اٹھتے ہیں۔
طارق صاحب ہمہ صفت موصوف شخصیت تھے اور انکی زندگی کے کئی گوشے ہیں جو قابل ذکر ہیں ۔وہ شاعر بھی تھے، وہ اداکار بھی تھے وہ لکھنے لکھانے سے بھی شغف رکھتے تھے اور کچھ عرصہ صحافت سے بھی وابستہ رہے،وہ ایک بہت عمدہ کمپیئر بھی تھے اور پاکستان ٹیلی وژن کے بلکل ابتدائی دور سے ہی اس سے وابستہ ہوگئے تھے اور سب سے بڑھ کر وہ ایک سچے پاکستانی اور اچھے مسلمان تھے۔ ان کا پی ٹی وی کی تاریخ کا طویل ترین شو یعنی نیلام گھر ایک یادگار اور اپنی مثال آپ شو تھا اور بے شمار پاکستانیوں کے بچپن اور لڑکپن کی یادیں اس نیلام گھر کی خوشبو سے مہک رہی ہیں جسکی مستانہ وار کمپیئرنگ جناب طارق عزیز ہی کا خاصہ تھی اور جس طرح سب رنگ ڈائجسٹ کا تصور جناب شکیل عادل زادہ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا بلکل اسی طرح سے نیلام گھر اور طارق صاحب بھی لازم و ملزوم ہی تھے۔پی ٹی وی کراچی کے سابق جی ایم قاسم جلالی نے طارق عزیز کی بحیثیت پروگرام کمپئیر فنی صلاحیتوں کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔
ان دنوں جبکہ پروگرام ریکارڈ کرنے کی بجائے براہ راست چلائے جاتے تھے،طارق عزیز کو سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔پروگرام شروع کرنے کے بعد کسی اداکار یا کردار نے آنا ہوتا تھا اور اسے آنے میں تاخیر ہوجاتی تو طارق عزیز دیکھنے والوں کو اپنی ایسی باتوں میں لگا لیتے کہ تاخیر محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ، یوں تاخیر کا عرصہ کمال خوبی سے ازخود نکل جاتا تھا۔
طارق عزیز صاحب نے فلم انڈسڑی میں اس دور میں قدم رکھا کہ جس دور کو ہم بجا طور پر پاکستانی فلمی دنیا کا سنہری دور کہہ سکتے ہیں۔آپ نے کئی سپر ہٹ اور یادگار فلموں میں اہم معاون کردار ادا کئے جن میں انسانیت،سالگرہ اور قسم اس وقت کی اور ہار گیا انسان جیسی سپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔ پھر نیلام گھر کا آغاز ہوا تو طارق صاحب اس پروگرام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے شاید و باید ہی کوئی ہوگا جسے اس پروگرام کے آغاز میں پاٹ دار آواز اور ٹہرے ہوئے لہجے میں ان کا دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے کہنا یاد نہ ہو۔ وہ ایک علم دوست شخصیت بھی تھے اور ایک علم دوست شخصیت ہونے کے حوالے سے صاحب قلم بھی تھے اور خود بھی قلم کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے رہے ۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ’’داستان‘‘ کے نام سے اورپنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’’ہمزاد دا دکھ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی ہے۔، مشہور کہانی نویس ادیب اور صحافی جناب اختر حسین شیخ نے ایک جگہ لکھا ہےکہ جب طارق عزیز صاحب سے ملاقات اور نشست ہوا کرتی تو وہ اکثر یہ مشہور اشعار ؎اچے برج لاھور دے جتھے بلدے چار مشال اک پاسے میاں میر دے بستی اک پاسے شاہ جمال اک پاسے دا داتا مالک اک دا مادھو لال اچے برج لاھور دے۔۔ بڑے لہک لہک کر سنایا کرتے اور میں بڑے عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ یہ ان کے اپنے اشعار ہیں لیکن پھر کچھ عرصے بعد معلوم ہوا یہ مشہور شاعر سیف زلفی کے اشعار ہیں۔ٌ مختلف اشعار پڑھتے وقت ان پر ایک والہانہ سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور اپنے پروگرام میں بھی کسی اور کی زبانی بھی اگر واقعی کوئی اچھا شعر سنتے تو انکے داد دینے کا انداز بڑا دل پذیر ہوا کرتا تھا۔
تو محترم طارق عزیز آپ بھی رخصت ہوئے اوردارالفنا سے دار البقا کی جانب کوچ کرگئے اور یہ امید ہے کہ وہاں آپ کو اس دوسرے جہان میں بھی رب ذوالجلال کا وہ بابرکت نام جس سے آپ نیلام گھر کا آغاز کیا کرتے تھے اپنے برکات و تجلیات کے حصار میں لے چکا ہوگا اور آپ کو جوار رحمت میں جگہ ملے گی کیونکہ آپ ایک اچھے انسان تھے اور اپنی مقبولیت اور شہرت کی مدد سے بہت سے لوگوں کے کام آیا کرتے تھے اور درد مندوں کے دکھ دور کیا کرتے تھے اور اپنے بندوں کی بلا غرض خدمت اس رب ذوالجلال کو بہت پسند ہے۔ آپ ایک سچے پاکستانی تھے اور پاکستان سے والہانہ محبت آپ کی گفتگو اور تحاریر میں جھلکتی تھی اور مجھے وہ پروگرام آج بھی یاد ہے کہ جو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نیلام گھر کا پہلا پروگرام ہوا تھا اور اس سارے پروگرام میں پاکستان کی محبت آپ کے ہر انداز اور بات سے چھلک رہی تھی یا وہ پروگرام بھی جس میں جاوید میانداد کو شارجہ کے تاریخی چھکے کے بعد مدعو کیا گیا تھا اوربھارت پر پاکستان کی اس فتح پر آپ جتنے خوش تھے وہ اس ملک سے آپ کی محبت کی مظبوط شہادت اور گواہی ہے۔(خرم علی عمران )۔۔