تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، بڑے بڑے ضدی،ڈھیٹ،ناقابل برداشت اور واہیات طبیعت کے وائرس دیکھے ہیں لیکن کورونا کا الگ ہی لیول ہے۔ یہ ڈیڑھ سال سے اسلامی تہواروں کی تاک میں بیٹھا ہے۔ عین رمضان المبارک ، عید الفطر، عید الضحی کے موقعے پر ابھر کرسامنے آجاتاہے،یایوں کہہ سکتے ہیں کہ زورپکڑلیتاہے۔پھرجیسے ہی یہ تہوار گزرجائیں،حالات نارمل ہونے لگ جاتے ہیں۔ (یقین نہیں آتا تو گوگل سے پچھلے ڈیڑھ سال کے اعدادوشمار نکال کے دیکھ لیں کہ وبا کا تناسب کن مہینوں میں عروج پر گیا) ابھی عید میں ایک ہفتہ باقی ہے،یہ وائرس پھر سے کسی حکیم کا فولادی کشتہ کھاکر میدان میں اترچکاہے، اس پر یہ وائرس بھارتی نقاب اوڑھ کر آیا ہے۔سندھ حکومت نے ہنگامی طور پر کراچی سمیت سندھ بھر میں جزوی لاک ڈاؤن لگادیا ہے۔حیرت انگیز طور پر برطانیا میں ہونے والی ون ڈے کرکٹ سیریز میں بڑے بڑے ہجوم اسٹیڈیم میں بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے نظر آئے، جب کہ ہمارا پی ایس ایل فوری طور پر عرب امارات منتقل کردیا گیا، بہانہ اسی وائرس کا بنایاگیا۔ یورپ میں ہونے والے حالیہ فٹبال میچز میں ہجوم کا عالم پوچھیں نہیں،لگتا ہی نہیں تھا کہ وہاں کورونا وائرس موجود ہے۔۔دوسری طرف خبردار حج بیت اللہ پر پابندی عائد ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ آپ خود ہی سمجھیں۔۔ کل ایک کوویڈ ویکسین سنٹر پر کام کرنے والا لڑکا بتا رہا تھا کہ ایک فیملی ستر سالہ بابا جی کو ویکسین لگوانے لے کر آئی۔۔بابا جی اپنے بچوں سے اصرار کر رہے تھے کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے جو بابا جی کو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دے گی۔۔ایک قدیم عربی حکایت ہے کہ ۔۔کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین افراد کو سزائے موت دی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا، رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا، چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا، ان میں سے ایک عالم، ایک وکیل اور ایک فلسفی تھا۔۔سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا۔ میرا خدا پر پختہ یقین ہے ،وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا۔اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا۔۔اس کے بعد وکیل کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے،یہاں بھی انصاف ہوگا،اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا، پھانسی دینے والے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی۔۔اس کے بعد فلسفی کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا ۔عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا، فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا۔۔حکایت کی دُم:بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے۔۔ نکاح سے کچھ دیرپہلے اسٹیج پر کھڑے قاضی صاحب نے باآواز بلند کہا۔۔اگر کسی کو اس شادی پر کوئی اعتراض ہے تو اب بھی وقت ہے، ابھی بتا دے،جس کو جو بھی کہنا ہے آ کر کہہ دے، تبھی بھیڑ میں پیچھے کھڑی ایک خوبصورت لڑکی اپنی گود میں بچے کو لے کر آگے آ گئی۔یہ دیکھتے ہی اسٹیج پر کھڑی دلہن نے دلہا کو تھپڑ مارا!!!دلہن کے والد بندوق لینے کو بھاگے!!دلہن کی ماں بیہوش ہو گئی!!ایک افراتفری مچ گئی۔۔تب قاضی نے لڑکی سے پوچھا۔۔آپ کا مسئلہ کیا ہے؟لڑکی نے جواب دیا۔۔جی، وہ پیچھے ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہا تھا، اس لیے میں آگے آئی ہوں۔۔یہ بالکل اسی طرح سے ہے کہ حادثے کے بعد ڈرائیور غصے سے دھاڑا۔۔میں ڈپر مارکر بتابھی رہاتھا کہ پہلے مجھے نکلنے دو۔۔دوسرا ڈرائیورجو سردارجی تھے،آستینیں چڑھاتے ہوئے کہنے لگے۔۔میں نے بھی وائپر چلا کر کہا تھا، نہ سوہنیا نہ۔۔ ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا، تم اپنی بیوی سے پہلی بار کیسے ملے؟ دوست نے جواب دیا۔۔کتے کی وجہ سے؟ پہلے دوست نے حیران ہوکرپوچھا، کتے کی وجہ سے؟؟ دوست نے کہا، ہاں! کتے کی وجہ سے۔ میں اپنے کتے کو لے کر عصر کے بعد پارک میں سیر کے لیے جا رہا تھا۔ وہ راستے میں ملی، مجھ سے پوچھا کتا بیچو گے؟؟ میں نے کہا نہیں۔ تھوڑی دیر ہم میں گفتگو ہوئی، ایک دوسرے کے موبائل نمبر ہم نے لیے اور اپنے اپنے راستے چل دیے۔۔پہلے دوست کو کہانی دلچسپ لگی، پوچھنے لگا، پھر کیا ہوا؟؟ دوست بتانے لگا۔۔پھر ہم روزانہ فون پر گفتگو کرتے، وہ مجھ سے کتے کے بارے میں پوچھتی،اُسے وہ بہت پسند تھا۔ایک دن ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم شادی کر لیتے ہیں، اس طرح کتا ہم دونوں کا ہو جائے گا۔ چنانچہ ہم نے شادی کر لی۔ چند سال گزر گئے۔ اس دوران ہمارے ہاں ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے۔۔پھر ایک دن کتا مر گیا۔میں نے بیگم سے کہا کہ کتے کی وجہ سے تم نے مجھ سے شادی کی تھی۔ وہ مر چکا ہے۔ کیا مجھے چھوڑ دو گی؟۔۔بیوی نے انکار میں سردائیں سے بائیں ہلاتے ہوئے تسلی دی اور کہنے لگی۔۔ہرگز،ہرگز نہیں، میں تو سوچ بھی نہیں سکتی۔۔ میں خوش ہوگیا اور وجہ پوچھی، کیوں؟؟۔۔’’تم مرحوم کی آخری نشانی ہو نا‘‘ بیگم نے جھٹ سے جواب دیا۔ ہمارے محترم دوست اور اینکرپرسن سبوخ سید کاکہنا ہے کہ ۔۔اپنی شریک حیات کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔اس کی وجہ وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ۔۔ایک بیوی کی لائف میں جو کام کرنے کا عروج والا عرصہ ہوتا ہے وہ تقریباً بیس سال کا ہوتا ہے یا اس سے کچھ زیادہ۔ان بیس سالوں میں ایک بیوی تقریباً (2kgx 365x 20)365 من آٹا گوندھتی ہے۔۔ ڈیڑھ لاکھ روٹیاں پکاتی ہے۔۔ 200 من چاول پکاتی ہے۔۔ 300 من سبزی اور کوشت وغیرہ پکاتی ہے۔۔ تقریباً 40 لاکھ اسکوائر فٹ پر جھاڑو پوچا کرتی ہے۔۔تقریباً 40 ہزار جوڑے کپڑے دھوتی ہے اور استری کرتی ہے ۔۔اس کے علاوہ بچوں کے پیمپر بدلنا اسکول بیگ اور ٹفن تیار کرنا،مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنا۔۔اور بھی بہت سے چھوٹے موٹے کام ہوتے ہیں جو سرانجام دیتی ہے۔اب اگر یہی کام دو بیویاں کریں تو کتنی آسانی ہو جائے ؟؟اور اگر چار بیویاں کریں تو سوچیں زندگی کتنی سہل ہو جائے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہمارے ملک میں زیادہ تر پاگل ایسے ہیں،جنہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ پاگل ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔