تحریر: ناصرجمال
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے
سیاہ شب کے! خدائوں کا دم نکلتا ہے
وطن پہ مٹنے کا جب بھی سوال آتا ہے
تو سب سے پہلے ہمارا قدم نکلتا ہے
(منظرؔ بھوپالی)
شفا یوسفزئی مارننگ ٹی۔وی ہوسٹ ہیں۔ ان کا شمار’’لبرلز‘‘ میں ہوتا ہے۔ اسد طور اور حامد میر کے حوالے سے ان کی نئی کہانی نے، نام نہاد لبرلز کا جہاں چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ وہیں پر ایجنٹ صحافیوں کو منہ چھپانے کے لاحق نہیں چھوڑا۔ اطلاعات آرہی ہیں کہ اگلے دنوں میں، اس ضمن میں اور کئی انکشافات ہونگے۔ کاکول اکیڈمی سے ’’ڈرم آئوٹ‘‘ ہونے والے، صحافت سے بھی ڈرم آئوٹ ہونے کیلئے تیار رہیں۔ بہر حال گُتھیاں سلجھ رہی ہیں۔ حقائق سامنے آئیں گے۔ قلم کار تو کب سے کہہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ ’’اسکرپٹڈ‘‘ ہے۔
شفا یوسفزئی برطانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ انھوں نے اسد طور کا نام لینے کی بجائے، اس کی تصویر کو وی لاگ کا حصہ بنایا۔ جبکہ حامد میر اور صحافیوں کا احتجاج بھی اس میں شامل ہے۔ خاتون نے کہا کہ ہمارے ہاں بہت آسان ہے کہ خود کیمرہ فٹ کرکے سوشل میڈیا یا اینکر بن جانا اور پھر خواتین کی کردار کُشی شروع کر دیتے ہیں۔میں شدید دبائو کے باوجود ایف۔ آئی۔ اے اور عدالت گئی ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ انصاف سالہاسال نہیں ملتا۔ انھوں نے کہا کہ وہ عورت ہیں۔ جو لوگ عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ وہ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ میرے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ کے بعد دوسری بار ہوا ہے کہ لوگ عورت کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔
اُردو، انگلش کی مکس گفتگو روانی سے کرتے ہوئے شفا یوسفزئی نے کہا کہ ہمارے ہاں کوئی بھی واقعہ ہوجائے تو، آسانی سے اداروں پر الزام لگا دیا جاتا ہے۔ کسی کے گھر میں کوئی چیز ٹوٹ جائے تو ،اس کا الزام بھی ان پر لگا دیا جاتا ہے۔انکوائری ہو۔ رزلٹ آئے۔ پھر الزام لگائیں۔ مگر یہاں لوگ پہلے فیصلہ دے دیتے ہیں۔ کہ فلاں،فلاں ادارہ ملوث ہے۔ یہاں کے غیر صحافیوں کو دنیا کے مستند ادارے صحافی بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مجھے اُن کی انگریزی اور سوچ پر افسوس ہے۔ میں عدالت گئی ہوں۔ عدالت سے مجھے انصاف کی مکمل توقع ہے۔ تشدد سے تو، سب سے زیادہ فائدہ اسد طور کو ہوا۔ اُسے ہمدردی ملی ہے۔ اُسے پروڈیوسر سے صحافی بنا دیا گیا ہے۔ گندے انڈوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ میں گندے انڈوں کو ضرور پھوڑوں گی۔ معزز جج نے میری شکایت کو حقیقی قرار دیا اور انکوائری کا حکم دیا۔ جو لوگ مجھ پر تنقید کررہے ہیں۔ اگر وہ بیٹیوں والے ہیں تو میرے خلاف جو وی لاگ جاری ہوئے۔ انھیں سننے کے بعد فیصلہ کریں۔
شفایوسفزئی نے پاکستانی مردوں کے حوالے سے شاندار جملے کہے اورانھیں عورت کا محافظ قرار دیا۔ اور کہا ایسا دنیا میں کم ہوتا ہے۔ انھوں نے بہت مدلل انداز میں اپنا کیس میڈیا اور قوم کے سامنے رکھا ہے۔ انتہائی شاندار وی لاگ ہے۔ اسے آپ ایک متوازن، وی لاگ کہہ سکتے ہیں۔ وی لاگ پر جہاں اکثریتی تبصرے انتہائی مثبت اور حوصلہ افزا ہیں۔ وہیں پر نام نہاد ’’لبرلز‘‘ کی روایتی بدتمیزی، بدتہذیبی اور اخلاقی دیوالیہ پن بھی خوب نکل اور نکھر کر سامنے آرہا ہے۔ شائستگی نام کی چیز ان کو چُھو کر نہیں گزری۔ انھیں پتا ہی نہیں چل رہا کہ ان کے اندر کا میل، گند اور سیاہی ان کے چہرے اور کرداروں کو کتنا بدصورت بنا رہی ہے۔ یہ باجی، باجی کے بہت طعنے دے رہے تھے۔ اب کیا ہوا ہے۔ شفا یوسفزئی کا شمار تو لبرل اور ماڈریٹ صحافی کےطور پر ہوتا ہے۔ بندہ تو آپ کی سائیڈ کا برآمد ہوا۔ اب آپ اس کے بھی خلاف ہوگئے ہیں۔ کیونکہ اس کا اسٹینڈ لینا، آپ کو سوٹ نہیں کررہا۔ اس میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ شفا یوسفزئی کی ایف۔ آئی۔ اے کوشکایت اسد طورواقعہ سے پہلے کی ہے۔ مبینہ تشدد والی رات سے اگلے روز اُسے ایف۔ آئی۔ اے کے سامنے پیش ہونا تھا۔ کمال اسکرپٹ ہے۔ ہر چیز ٹوسٹ کردی۔ حامد میر اور صحافی لیڈروں کے راتوں رات ضمیر جاگ گئے۔ جب ساتھی رپورٹرز اور ورکرز کو اداروں سے خسارے کے نام پرنکالا جاتا رہا۔ سب کے ضمیر چھٹی پر تھے۔ امریکہ سے لیکر برطانیہ، بھارت سے لیکر پاکستان میں ایک مخصوص طبقے نے جس طرح، اس کارڈ کو کھیلا ہے۔ وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
ایک ٹی۔ وی پروڈیوسر اور غیر مہذب بلاگر یا وی لاگر کیسے صحافی ہوسکتا ہے۔ پی۔ ڈی۔ ایم اور اپوزیشن کا اس سے اظہار یکجہتی انتہائی قابل افسوس ہے۔ اس طرح سے ان صحافیوں کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے۔ جو آج مالکان اور حکومت کے نشانے پر ہیں۔ اسی کسمپرسی پر کتنے ہی جان سے چلے گئے۔ کوئی پارلیمنٹ میں بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ، بابا رحمتے بھی، سیٹھوں سے ڈر گئے تھے۔
آج یوٹیوبر، وی لاگر، بلاگر طاقتور ہے۔ ’’صحافی‘‘ بے آسرا اور بے یارومددگار ہے۔ منافقت اور دوہرے معیار کی بھی حد ہوتی ہے۔
قارئین۔۔عزیزی عاطف شیرازی، انتہائی حساس، اور ایک نمبر صحافی ہے۔ اس نے میرا گذشتہ روز کا کالم، شیئر کیا۔ جس پر، پرویز شوکت، اس سے ناراض ہے۔ درویش، سید زادے نے جواباً، اسے کہا کہ ناصر جمال نے کیا غلط لکھا ہے۔ سب سچ ہے۔ عاطف شیرازی، بہت ڈسٹرب ہے۔ اسے لگ سمجھ گئی ہے کہ لیڈر سیاسی ہو کہ صحافتی، وہ صرف اپنے نیچے لوگوں کو استعمال کرتا ہے۔ میں نے عزیزی کو بہت منع کیا۔ وہ نہیں مانا۔ اب دُکھ میں ہے۔ مگر اُسے اٹھنا چاہئے۔ ہار نہیں ماننی چاہئے۔ اپنا وقت ان لیڈروں کے پیچھے برباد کرنے کی بجائے، اپنے شعبہ صحافت کو دینا چاہئے۔ جو کہ وہ دے گا۔
بہر حال شفا یوسفزئی نے بڑی جرأت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے لبرلز اور صحافتی لیڈروں کو للکارا ہے۔ جس کے بعد، ایک بار سراسمیگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اب اس وی لاگ کو آئی۔ ایس۔ آئی اور دبائو سے جوڑا جائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا۔ ان کی جانب سے یہی موقف آیا تھا کہ ادارے کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اب جبکہ جھوٹ بے نقاب ہونے جارہا ہےتو، نام نہاد لبرلز اور ایجنٹ صحافی اب نئے سازشی تیر اپنے آقائوں کے ترکش سے نکالیں گے۔ کمال کی سازشی تھیوریاں ڈھونڈ کرلائیں گے۔ ریاست کے دبائو کا رونا روئیں گے۔ اندر کے خوف کو چھپانے کی کوششیں کریں گے۔
میری دُعا اور خواہش ہے کہ یہ ’’ڈرامہ‘‘ اپنے اختتام تک پہنچے۔ تاکہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی الگ ہو۔ جبکہ اب نیا ڈائیلاگ اوپن ہونا چاہئے۔ تاکہ۔۔صحافت قابضین سے نجات پائے۔ ’’پراپرٹی ڈیلرز‘‘ اپنی پراپرٹی کے کام کو دیکھیں۔ صحافی، صحافت کریں۔
اب بہت سی چیزیں، معاملات، حدود و قیود، ریاست اور اُس کے ستونوں کے درمیان طے ہوجانی چاہئیں۔ ادارے مضبوط ہونے چاہئیں۔ صحافت کے ستون کو مت روندیں۔ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پر پہلے آئیں۔ ورکنگ جرنلسٹوں سے بات کریں۔ یہ افضل بٹ، نواز رضا، پرویز شوکت، رانا عظیم ہمارا چہرہ نہیں ہیں۔ جنہیں عوام صحافی مانتے اور جانتے ہیں۔ ان سے بات کریں۔ فواد چوہدری سیاسی خانوادے سے ہیں۔ الطاف چوہدری اور شہباز چوہدری جیسے ہیوی ویٹ بزرگوں کے بچے ہیں۔ عجلت میں کام نہ کریں۔ پاکستانی میڈیا کو ’’چائنیز میڈیا‘‘ بنانے کی کوششیں ترک کردیں۔ جیسے پاکستانی فوج چینی، مصری، برمی یا امریکی فوج نہیں بن سکتی۔پاکستانی صحافت بھی سعودی، بھارتی، بنگالی، چائنیز یا امریکی صحافت نہیں بن سکتی۔ ہم ایک طویل جدوجہد کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔ اگر صحافیوں پر ہائبرڈ اور پیراشوٹرز کی ایک مخصوص نسل مسلط نہ کی جاتی۔ تو یقین کریں کہ آج میڈیا سے ، اداروں اور سیاست دانوں کو اتنی شکایات نہ ہوتیں۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنا قبلہ اتنی آسانی سے نہ بدل سکتے۔ اس ملک میں ایڈیٹر نامی ادارہ انتہائی معذرت کے ساتھ سیاستدانوں، بابوئوں اور دوستوں نے مل کر برباد کیا ہے۔ اپنے دوستوں اور لے پالکوں کو ایڈیٹر لگادیا۔
ابھی چند روز پہلے کی بات ہے۔ کسی صحافی دوست کا فون آیا۔ کہنے لگا۔ جناب کی اپنے ادارے میں بات کی۔ جواب آیا۔ وہ پروفیشنلی تو سائونڈ ہے۔ مگر مالکان کو پروٹوکول اور ذاتی کام درکار ہیں۔ اُس کیلئے وہ فٹ محسوس نہیں ہوتا۔ جی ہاںٖ! ایڈیٹر کا اصل ’’کیراسٹریا‘‘ یہی ٹھہرا ہے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ اوپر سے فون کروا لو۔
فاروق فیصل خان جیسا پروفیشنل ایڈیٹر کب سے بے روزگار بیٹھا ہے۔ نوشین نقوی جیسی کمال میگزین ایڈیٹر، ٹی۔ وی کو جاننے والی گھر پر ہے۔ناصرہ زبیری جیسی، ورکروں کیلئے لڑنے والی، انتہائی پروفیشنل خاتون، جس نے پہلی خاتون نیوز ڈائریکٹر کے طور پر خود کو منوایا۔ دو بڑے چینل آج اور نیوزون، تن تنہا کھڑے کردیئے۔ کتنے ہی سالوں سے گھر بیٹھی ہے۔ سید صفدر علی جیسا خوبصورت آدمی ایک عرصہ ہوا گھر پر ہے۔ اور بے شمار اُردو، انگریزی لکھنے والے ہیں۔ ارسلان بختیار، علی حسن، بی۔ بی۔ سی والے، جنہیں ایک مالشیا کہتا تھا کہ وہ اُردو ٹھیک نہیں لکھتے۔ خود وہ دس الفاظ میں چار بار لفظ ’’جونسا‘‘ بولتا تھا۔ شیخ رشید کا بھائی۔۔۔ یہ ’’جونسا‘‘ کونسا لفظ ہوتاہے۔ ہمارے اُستاد عمران بٹ جیسا تیز طرار آدمی اوپر ہی نہیں آسکا۔ آج اخبارات میں ایسے، ایسے ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر، جبکہ نیوز ڈائریکٹر اور ایسے، ایسے بیورو چیف ہیں۔ جنہیں اخبار اور ٹی۔ وی کے دفتر میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہئے۔ حتیٰ کہ سیڑھیاں چڑھنے کی بھی نہیں۔ ’’نان پروفیشنل ازم‘‘ کو آج سے زیادہ عروج کبھی نہیں ملے گا۔
سیاست سے لیکر صحافت، بیورو کریسی سے لیکر ٹیکنو کریسی، حتیٰ کہ ملاں کریسی پر بھی زوال ہے۔ کاروباریئے جعلی ہیں۔ صنعت کار، اب ہدایت کار بن چکے ہیں۔ اب تو شاعر اور ادیب بھی وہ اوپر آتے ہیں۔ جن پر ہاتھ ہوتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ فلم انڈسٹری مرچکی ہے۔ ٹی۔ وی مررہا ہے۔ اسکرپٹ دفن ہوچکا ہے۔ تخلیق ہو تو ،آج بھی چلتی ہے۔ ترکی کے ڈرامے ایسے ہی تو، سب کچھ ہڑپ نہیں کرگئے۔
آپ اگر ’’صحافتی واچ ڈاگ‘‘ کے میکنزم کو برباد کریں گے۔ تو اس ریاست کی جڑوں میں آپ ڈائنامیٹ کا بٹن پُش کریں گے۔ کیونکہ ڈائنامائیٹ تو آپ پہلے ہی لگا چکے ہیں۔ تبدیلی سرکار کے لونڈے لپاٹے، اب میڈیا کی سمت اور منزل کا تعین کریں گے۔ انتہائی قابل افسوس ہے۔
شاہ احمد نورانی، ضیاء الحق کے پاس گئے۔ شدید تکرار کی۔ آپ میرا کام کریں۔ انکار نہیں سنوں گا۔ ضیاء الحق عاجزی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ ان کےاجداد سےاحترام کے رشتے گنواتے ہے۔ پوچھا، شاہ صاحب حکم کریں۔ شاہ احمدنورانی نے کہا کہ ’’مجھے جنرل بنا دیں۔‘‘ ضیاء الحق کے حیران ہونے کی باری تھی۔ انھوں نے ابتدائی ٹیسٹ سے لیکر آئی۔ ایس۔ ایس۔ بی، کاکول، کورسز، کمانڈاینڈ سٹاف کالج، میڈیکل سمیت کیا کچھ نہیں گنوایا۔ شاہ احمد نورانی، شدید متاثر دکھائی دے رہے تھے۔ وہ گویا ہوئے اور کہا کہ کیا واقعی جنرل اتنی مشکل سے بنتا ہے۔ ضیاء الحق نے فخر سے سینہ پُھلاتے ہوئے کہا کہ ’’ اور کیا شاہ صاحب‘‘۔ اس پر شاہ احمد نورانی نے ان سے کہا کہ جنرل صاحب، پھر مجھے ایک بات تو بتائیں اور سمجھائیں کہ سیاستدان کیا، راتوں رات پیدا ہوجاتا ہے۔
حضور، سیاستدان ہوکہ جنرل، بیورو کریٹ ہو کہ صحافی، وہ راتوں رات پیدا نہیں ہوتا۔ دوستوں نے سیاستدان، سیاستدانوں نے بابو، اور مالکوں (سیٹھوں) نے راتوں رات صحافی پیدا کرکے دیکھے ہیں۔ اب سب بھگتیں۔ اس ملک کایہ حال ایسے تو نہیں ہوا۔ فوج نے اپنا ایم۔ ایس بچا لیا۔ ڈسپلن نظم و ضبط بچا لیا۔ تربیت کے اعلیٰ معیار بچا لئے۔ ہمارے لئے عمران خان، اعظم خان، نواز شریف، فواد حسن، یوسف رضا گیلانی، زرداری ،نرگس سیٹھی اور فاروقی چھوڑ دیئے۔
صحافت میں میر، بٹ، اعزازے، چیمے، نواز رضے اور پتا نہیں کون، کون چھوڑ دیئے۔ حتیٰ کہ ودود قریشی جیسے تحفے دیئے۔ 32سال میں رپورٹر نہیں بنتا۔ یہاں کزنز اور مسلک کی بنیاد پر اعلیٰ ترین اخبارات میں ایڈیٹر لگا دیئے جاتے۔آج صحافی کون ہے اس کا فیصلہ سردارنیازی، اوصاف کا مہتاب عباسی، اخبار فروش ٹکا خان، کوئی گھی ِمل والا، تو کوئی فلٹر والا، کوئی یونیورسٹی والا، کوئی کالج والا، تو کوئی غیر ملکی سپانسرڈ ملاں، حتیٰ کہ سونے کا تاجر اور پراپرٹی ٹائیکون کرتا ہے۔
ہمیں ریاست کی سمت طے کرنا ہوگی۔ اداروں کو سوچنا ہوگا۔ حکومتوں کو غیر سنجیدہ رویہ ختم کرنا ہوگا۔ پی۔آئی۔ ڈی جیسے بریکرز کو ہموار کرنا ہوگا۔ پیشہ ور صحافیوں کی غالب ترین اکثریت، کبھی بھی کوئی ڈیڈ لائن کراس نہیں کرتی۔ آپ ایڈیٹرز کے ادارے بحال کردیں۔ ایڈوائس، دھونس، خوف کے ’’کنٹوپ‘‘ صحافیوں کے سروں پر نہ چڑھائیں۔ آپ کی شکایات ہی نہیں رہیں گی۔ سوچیں، حضور سوچیں، آج اس قوم کو پراسس کی پیداوار نیچرل جنرل، سیاستدان، بیورو کریٹ، صحافی، پروفیشنلز، آرٹسٹ، بزنس مین اور علماء چاہئیں۔(ناصر جمال)۔۔