تحریر:خضرحیات کورائی
جنوبی ایشیا جغرافیائی اعتبار سے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جب سے ہوش کے آنگن میں قدم رکھا ،تاریخ کا مطالعہ کیا، حقیقت کی چادر دنیاوی ننگے کھیل کے بدبودار جسم سے اٹھنے لگی ۔انسانی تعلقات اور تہذیب کی بقا و نمومیں دو عنصر مضمر ملے “اطاعت اور حکومت “۔جو قومیں محض ارادہ و اناکے بل بوتے پر زندہ رہنا چاہتی ہیں ، اطاعت کی صلاحیت سے یکسر محروم ہیں، وہ صلاحیت کے استعمال کو باعث ننگ سمجھتی ہیں ۔اس سے کم پر راضی نہیں ہوتیں، ہم قدمی سے بھی جی چراتی ہیں۔وہ صرف حکومت ہی کرنا چاہتی ہیں، ان کے مقدر میں اندھیرے لکھے ہیں،بہت ہی کم اقوام اپنے خواب شرمندہ تعبیرکرپاتی ہیں اور ایسا صرف ان کی سوچ و لگن کا باعث ممکن ہے۔بات کڑوی ضرور ہے مگر سچ ہے ،دوستی ،محبت تکریم ہر مال بکاؤ ہے ۔کسی کی کوئی قدر نہیں ،دور نہ جائیں اپنی دھرتی ماں کو دیکھ لیں،70 سالوں میں جو آیا اپنی اناؤں کے بھنور میں پھنسا ملا،ہر بار نئی داخلہ و خارجی پالیسی دیکھنے کو ملی ہے۔
ہر کوئی ذاتی مفاد کو گلے لگائے، سیاست کے سمندر میں کشتی لیے ،یوں گھومتا رہاکہ سیاسی سمندری طوفان میں، ملک و قوم کا خیال تک نہ رہا۔ ہم بحیثیت قوم ، مصاحب کی حیثیت کے مستحق سمجھے گئے۔ میرے دیس کی صورتحال جوں کی توں ہے ۔سب کچھ بدل گیا نہ بدلا تو صرف ہمارا نظام، تعلیم یافتہ تو ہو گئے بلکہ اتنا علم حاصل کر چکے کہ دوسرا ہر کوئی جاہل نظر آتا ہے ۔معاشی ،سیاسی، اقتصادی وثقافتی بحرانوں سے گھرامیرا دیس لہو لہو ہے۔ کبھی دہشت گردی کی وارداتوں میں ،تو کبھی جنگ کے بادلوں میں لپٹی ،میری قوم کو لاشیں، ہمیشہ تحفے میں ملی ہیں۔ ہمارا جُرم صرف اتنا ہے کہ ہم عالمی طاقتوں کے حکمرانوں کی نہ اطاعت کر تے ہوئے ان کا یقین جیت سکے نہ ان پر حکومت کر پائے ، ہمیشہ علم بغاوت اٹھائے رکھا۔ اناوں کی جو حکومت ہم نے قائم کر رکھی ہے، اس میں ہماری حیثیت اب عالمی حکمرانوں کی اطاعت گزاری کی رہ گئی ہے۔ جس اطاعت کے عمل سے نکل کرہم دنیا پر حکومت کرنے کے چکر میں بھاگتے رہے ،بدقسمتی سے آخر میں اسی کے پھندے میں آکر ہی پھنسے ہیں۔ قیام پاکستان سے ہندو قوم نے اپنے عیاری اور حاضر دماغی سے ہمیں صرف مات دی ہے ،ایک طرف کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے مقامی مہاراجہ کے فیصلے کو تقویت دلائی، دوسری جانب اپنے اسی قانون سے انحراف کرتے ہوئے، حیدرآباد کے بڑوں کے فیصلوں کو رد کیا، عوامی ا کثریت کے فیصلوں کو حق منوایا اور ہم صرف منہ تکتے رہے۔
موجودہ صورتحال پرنظر ڈالیں، نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، امید کی جانے لگی کہ بھارتی سفارتی تعلقات امریکہ سے مستحکم ہوں گے۔ کیونکہ نئی حکومت سے چھ ماہ قبل بھارتی ڈپٹی قونصل جنرل دیویانی خوبراگیٹ و دیگر کی امریکہ میں گرفتاری سے ،دونوں ممالک کے تعلقات میں کمزوری ظاہرہوچکی تھی۔ دونوں ممالک کے حلقوں نے اپنی اپنی شکایات کے انبار واشنگٹن میں لگائے ہوئے تھے۔ منموہن سنگھ، دور حکومت کے آخری دنوں میں تعلقات میں زیادہ کشیدگی پائی گئی ، جبکہ واجپائی دور میں بھارت امریکہ مضبوط اتحادی کے طور پر سامنے آئے ۔اسی دور میں بھارت اور امریکہ کے درمیان کئی جوہری معاہدے بھی ہوئے۔اب امریکی جنگی حکمت عملی تبدیل ہوچکی ہے ،دوبدو لڑائی لڑنے کی بجائے عالمی سطح پر معیشت کی جنگ لڑنے لگاہے ۔امریکہ اخراجات میں کمی لانے کی خاطر مختلف ممالک میں لڑی جانے والی جنگوں کو ختم کرکے، مذاکرات کی میز پر فیصلہ کرنے آ بیٹھاہے۔ یہی نہیں جنوبی کوریا سے بھی فوج واپس بلانے کا اعلان کیا، جس پر جواز پیش کیا گیا کہ جنوبی کوریا میں موجود امریکی فوج کے اخراجات کافی زیادہ ہیں اور جنوبی کوریا ہمیں اخراجات کا پچاس فیصد نہیں دیتا۔
موجودہ پاک بھارت کشیدگی میں امریکا کا کچھ خرچ نہیں ہوتا اگر جنگ ہوئی بھی تو اس کے جنگی سازوسامان ،برآمدات میں اضافہ ہو گا ۔تاریخ کی صفحات کو پھیلائیں تو کئی ممالک کے ساتھ تعلقات میں شکایتیں اور ان کی وفاداریاں سے انحرافی کے داغ ملیں گے۔ موجودہ جنگ کا کھیل اکیلے مودی کا نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی ملی بھگت ہے، بھارت کو اسرائیل اور امریکہ کا آشرواد حاصل ہے۔ مودی کو دوبارہ حکومت کے خواب دکھا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں ،سرحدوں پر کشیدگی اس منصوبے کی کڑی ہے۔ امریکہ واسرائیل پاکستان کی معیشت، سفارتکاری کے عمل سے بخوبی واقف ہیں، ہم بھی جذبات کی گرمی سے الگ نہیں ہو پا رہے اور جنگی حکمت عملی کو سمجھے بغیر حکومت پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ سیاسی کارکنان حکومت کے ہر فیصلہ کو جذبات کی نظر سے دیکھ کر آوازیں کس رہے ہیں ۔شاید انہیں علم نہیں، جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ آخر کار جنگ کے بعد بھی مذاکرات ہی ہونے ہیں۔ امریکا اسرائیل کوشش میں ہیں، پاکستان کو جنگ کی آگ میں دھکیل کر مزید معاشی طور پر کمزور کیا جائے ۔بعد میں عرب ممالک کے توسط سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی راہ ہموار کی جائے، ہمارے سینئر تجزیہ کاروں اور سابق جرنیلوں کے بیانات بھی سامنے ہیں۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کیونکہ وہ سفارتکاری سے واقف ہیں ۔وہ اسرائیل سے تعلقات بہتر بنا کر سفارت کاری کے عمل کو درست کرنے کے خواہاں ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عالمی طاقتوں کے دباؤ میں آ کر اس پر غور کیا جائے اور اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ مگر حالات واقعات اس طرف اشارہ کررہے ہیں۔
عالمی طاقتوں نے منصوبوں کے ذریعے ہی ملکوں کو دبوچا ہے ۔امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالے ہوئے ہے، دکھاوا نہیں کرتا مگر زخموں پر مرہم پٹی خاموشی سے پاکستان کودیوالیہ اور کمزور کرنے سے لگانا چاہتا ہے۔ہمیں جغرافیائی قافلوں میں شامل صرف ایک ملک کی حمایت حاصل رہی ہے ، موجودہ حالات میں اس کی خاموشی بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے؟ چین اپنا پتا وقت آنے پرپھینکنا چاہتا ہے ۔یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ موجودہ دور میں عالمی طاقتیں جنگ لڑنے کی بجائے، خود کومعاشی طورپرمستحکم کرنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ ہم دوملک ماضی سے کچھ نہ سیکھتے ہوئے دست و گریباں ہیں۔اور ایک میز پہ معاملات طے کرنے کو راضی نہیں، بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ (خضر حیات کورائی)