طویل انتظار کے بعد سیاسی میدان میں ہلچل شروع ہو رہی ہے۔ ایک ٹیم وردیاں پہن کر میدان میں اترنےکیلئے تیار ہے مگر دوسری ٹیم نیم مردہ اور غیر متحرک ہے، ایسے میں میچ بھلا خاک ہو گا۔ انصاف کے ایوانوں سے کوئی انقلابی فیصلہ آنے کی امید ہے نہ ہی مقتدرہ کا د ل نرم ہونے کی کوئی توقع ہے۔سیاسی حریف چاہتے ہیں کھلاڑی کو پورا رگڑا لگایا جائے، کوئی بھی اسے رعایت دینے کو تیار نہیں۔کھلاڑی کو میدان سے باہر ہی کر دیا جائے یہ تو فیئر پلے نہیں ہو گا ،ظلم اور ناانصافی ہو گی۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کھل کر بول پڑے۔جیو ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان “کھلاڑی کو راستہ دیں…” میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ طویل انتظار کے بعد سیاسی میدان میں ہلچل شروع ہو رہی ہے۔ میچ تو تبھی مزیدار ہو گا کہ دونوں ٹیموں کو میدان میں اترنے کے برابر مواقع دیئے جائیں۔صورتحال یہ ہے کہ کھلاڑی کے چاروں طرف دیواریں چن دی گئی ہیں نہ کوئی تحریک چلتی نظر آ رہی ہے نہ انصاف کے ایوانوں سے کوئی انقلابی فیصلہ آنے کی امید ہے نہ ہی مقتدرہ کا د ل نرم ہونے کی کوئی توقع ہے۔ سیاست میں نفرت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے سیاسی حریف چاہتے ہیں کہ کھلاڑی کو پورا رگڑا لگایا جائے، کوئی بھی اسے رعایت دینے کو تیار نہیں ۔حبس اور تنگی کے اس ماحول میں سیاست اور معیشت چلتی نظر نہیں آتی ۔ملک کو آگے لے جانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کھلاڑی کو راستہ دیا جائے اور اسے بھی کھیل میں شریک کیا جائے ۔اپنے بلاگ میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ یہ درست ہے کہ کھلاڑی نے سیاست کے میدان میں بہت فاؤل کھیلے سیاست میں اپنے حریفوں کو چت کرنے کے لئے ہر حد پار کرلی، اور تو اور خود اپنی سرپرست فوجی قیادت سے بھی بنا کر نہ رکھی اور ملکی معیشت کو چلانے میں ناکام رہا ۔یہ ساری چارج شیٹ درست بھی مان لی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی کو میدان سے باہر ہی کر دیا جائے یہ تو فیئر پلے نہیں ہو گا ،ظلم اور ناانصافی ہو گی۔نونی لیڈر اور کھلاڑی لیڈر دونوں نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن ان کی اس نفرت سے ملک میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہے اگر انہوں نے نفرت کی سیاست جاری رکھی تو وہ بالآخر ملک میں جمہوریت کے خاتمے پر منتج ہو گی۔کھلاڑی پاپولر ہے اس کا بیانیہ بِک رہا ہے اوورسیز ہوں یا پاکستان کی شہری مڈل کلاس، غربت کے شکار لوگ ہوں یا مہنگائی سے پسے عوام سب کھلاڑی کو سراہتے ہیں کھلاڑی کے ساتھ ریاست کے برے سلوک سے وہ سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی ناراض ہو رہے ہیں ۔ان کا بیانیہ نفرت، گالی اور مایوسی سے بھرا ہوا ہے ایسے میں نونی لیڈر اور ریاست کی مقتدرہ کو سوچنا ہو گا کہ کھلاڑی کو سزائیں دینے سے مسئلے حل نہیں ہونگے بلکہ مسائل کا نیا انبار لگ جائے گا،بالکل اسی طرح کھلاڑی کو جیل میں رکھ کر یا نااہل کرکے یا الیکشن سے باہر رکھ کر اسکی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جاسکا ۔واحد راستہ مصالحت ہے کھلاڑی کو سسٹم میں واپس لانا ہے بہتر ہے کہ یہ آج ہی کر لیا جائے وگرنہ کل کو مجبوراً اور زیادہ سخت شرائط پر یہی کرنا پڑے گا۔کھلاڑی کو بھی اب سیاسی ڈائیلاگ اور مفاہمت کے بند دروازے کھولنے ہونگے ،اصلی اور سچی جمہوری روایات کے ساتھ جڑنا ہو گا ،مقتدرہ کے ساتھ مل کر دھرنے اور گالیوں کی سیاست سے اجتناب کرنا ہو گا ۔ آئندہ کے لئے جذباتی فیصلوں کی بجائے عقلمندی کے فیصلے کرنا ہونگے۔بلاگ کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ 9مئی کے واقعہ نے کھلاڑی اور مقتدرہ کے درمیان کھلی جنگ چھیڑ دی، سیاسی جماعت کو مقتدرہ کے ساتھ اس طرح کی کھلی لڑائی سوٹ نہیں کرتی۔کھلاڑی کو بھی پرامن جدوجہد کے راستے پر چلنا چاہئے اور تشدد یا تخریب کی طرف مائل لوگوں سے اپنی راہیں جدا کر لینی چاہئیں ۔ وقت آگیا ہے کہ پرانے کھیل ختم کرکے انصاف پر مبنی میچ میں اترا جائے۔
کھلاڑی پاپولر،اس کا بیانیہ بک رہا ہے، سہیل وڑائچ۔۔
Facebook Comments