تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
اقتدار کا کھیل اچانک تیز ہوگیا ہے۔ عمران خان کی دو خفیہ ملاقاتوں کی خبر اب راز نہیں رہی۔ پہلی ملاقات کی خبر جب اسحاق خاکوانی صاحب نے ہمارے ٹی وی شو میں بریک کی تو اُس وقت پی ٹی آئی کی اکثریت انکاری ہوگئی کہ کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ فواد چوہدری صاحب نے خود ہمارے شو میں فرمایا کہ کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اب وہ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ ملاقات ہوئی ہے۔ امید ہے دوسری ملاقات بھی جلد مان لیں گے۔ پہلے حکومت بھی نہیں مان رہی تھی کہ عمران خان کی ایسی کوئی ملاقات ایوانِ صدر میں صدر عارف علوی نے کروائی ہے۔ میں نے خود وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے جب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی تک ایجنسیوں کی طرف سے ایسی کسی ملاقات کی خبر ان تک نہیں پہنچائی گئی۔
اب ایک ماہ گزرنے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف خود کہہ رہے ہیں کہ یہ ملاقات ہوئی تھی۔ اندازہ کریں‘ وزیرداخلہ اور وزیر دفاع کی خبریت کا یہ لیول ہے کہ انہیں ایک ماہ بعد پتا چلا ہے کہ یہ ملاقات ہوئی تھی جبکہ پوری دنیا میں اس غیرمعمولی خبر پر پروگرامز ہو چکے ہیں۔ کیا واقعی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو اس ملاقات کا علم نہ تھا یا وہ مصلحتاً بے خبر ہونے کا اعلان کررہے تھے تاکہ یہ خبر ان کی حکومت اور حامیوں پر برا اثر نہ ڈالے۔ اگر حکومت خود یہ ملاقات کنفرم کر دیتی تو اس کا بہت منفی اثر مرتب ہوتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرانا سیم پیج پھر سے ڈرائی کلین کیا جا رہا ہے‘ جس کے بعد شہباز شریف کی چھٹی اور عمران خان کا مطالبہ مان کر نئے الیکشن ہو سکتے ہیں۔ اس سے حکومت مزید کمزور لگتی لہٰذا اس خبر سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا گیا لیکن میرا خیال ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر دفاع‘ دونوں درست کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں جو حکومت خطرے میں ہو یا کمزور ہو اُسے ایسی خبروں سے دور رکھا جاتا ہے۔
یہی دیکھ لیں کہ جب چھ اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو حکومت کو رخصت کرنا تھا‘ اس دن ‘دی نیشن‘ اخبار میں عارف نظامی صاحب کی لیڈ خبر چھپی ہوئی تھی کہ آج پی پی پی حکومت توڑ دی جائے گی۔ پورے ملک کو پتا چل گیا لیکن بینظیر بھٹو کو کسی نے خبر نہ دی کہ آج ان کا وزیراعظم ہاؤس میں آخری دن ہے۔ وہ اعتماد سے کہتی رہیں کہ انہیں صدر غلام اسحاق خان نے یقین دلایا ہے کہ وہ آئین کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ وہ یہ بھول گئیں کہ حکومت توڑنے کا اختیار بھی آئین میں موجود تھا جسے صدر صاحب نے استعمال کیا۔
صدر لغاری نے جب بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت توڑی تو تب بھی وہ آخری لمحے تک پُرسکون تھیں کہ لغاری صاحب اُن کے بھائی ہیں۔ لغاری صاحب بھی آخری لمحے تک وزیراعظم ہاؤس سے آنے والے آفتاب شیر پاؤ جیسے دوستوں کو یہی یقین دلاتے رہے کہ وہ کوئی غیر آئینی کام نہیں کریں گے۔ جب میں اپنی کتاب ”ایک سیاست‘ کئی کہانیاں‘‘ پر کام کررہا تھا تو آفتاب شیرپاؤ نے مجھے یہ بات بتائی تھی کہ صدر لغاری نے انہیں یقین دلایا تھا وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے۔ ایجنسیاں بینظیر بھٹو کو صدر لغاری کے اس اقدام کی خبر بروقت نہ دے سکیں۔ یہ الگ بات کہ اگر بینظیر بھٹو کو پتا چل جاتا تو بھی وہ کر ہی کیا سکتی تھیں کیونکہ اس دور میں صدر کے پاس اسمبلی توڑنے کے اختیارات تھے اور جنرل جہانگیر کرامت صدر لغاری اور نواز شریف ساتھ کھڑے تھے۔
نواز شریف کے ساتھ بھی 12 اکتوبر 1999ء کو یہی کچھ ہوا۔ نواز شریف جس سپریم ایجنسی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف لگا رہے تھے اسے خود پتا نہ تھا کہ پرویز مشرف کی ٹیم کے پاس پہلے سے خفیہ پلان موجود تھا کہ اگر مشرف کو برطرف کیا گیا تو کیا ردعمل دیا جائے گا۔ جنرل ضیاء الدین بٹ کے پاس تو وہ خفیہ پلان پہلے سے ہونا چاہیے تھا جو جنرل شاہد عزیز کے کمپیوٹر میں محفوظ تھا اور جس کا انکشاف جنرل شاہد نے اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں کیا۔ جنرل ضیاء الدین بٹ کی اس درجہ کی لاعلمی کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہیں آرمی چیف لگایا جانا تو رہا ایک طرف‘ کیا وہ اس قابل بھی تھے کہ انہیں ایک اہم ایجنسی کا ہیڈ لگایا جاتا؟ جنرل ضیاء الدین بٹ اپنی اس لاعلمی یا نالائقی کی وجہ سے نہ صرف اپنا کیریئر تباہ کر بیٹھے بلکہ نواز شریف کی بھی لنکا ڈبو دی۔ اگرچہ نواز شریف اپنی لنکا ڈھانے میں خودکفیل ہیں لیکن اس معاملے میں جنرل بٹ کی لاعلمی نے انہیں ڈبو دیا۔
سیاستدان ایسے معاملات سے ہمیشہ لاعلم رہے ہیں اور اس کی بھاری قیمت وہ ادا کرتے آئے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ پھر بھی ان پوسٹس پر وہ ”اپنا بندہ‘‘ لگانے کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو پروفیشنل‘ ایماندار اور اپنے کام سے کام رکھنے والے سے زیادہ ایسا بندہ درکار ہوتا ہے جو ان کی وفاداری کا دم بھرتا رہے۔ مزے کی بات ہے ہر وزیراعظم نے اپنا وفادار ڈھونڈا اور ہر وفادار نے اس وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں یا پھر دہشت گرد قرار دلانے یا پھر جلاوطن کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن پھر بھی انہیں اپنے بندے کا ایسا چسکا لگا ہوا ہے کہ یہ حکمران باز نہیں آتے۔
اب خان صاحب اسلام آباد کو بہت جلد پانی پت کا میدان بنانے جارہے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی یہی خیال ہے کہ نومبر میں ”اپنا بندہ‘‘ ہی لگے۔ یہ سب کھیل اس نومبر کا ہے۔ ویسے آپ ان سیاسی حکمرانوں کی اوقات دیکھیں کہ ایک تعیناتی کے لیے بڑی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ حکومت کہتی ہے ہم اپنی مرضی کی تعیناتی کریں گے جبکہ دوسرا فریق اپنے ساتھ اپنے وفاداروں کا جتھا لے کر پانی پت کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کرنے والا ہے کہ نہیں جناب! بندہ وہی ہوگا جو ہم چاہیں گے۔ آپ کا لگایا ہوا بندہ ہمیں قابلِ قبول نہیں۔
ایک معمول کی تعیناتی اب ان سیاستدانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ شریف ہوں یا عمران خان‘ یہ ماضی میں انہی راستوں سے اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ وہ عوام کی سپورٹ کو کافی نہیں سمجھتے نہ ہی عوام کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ وہ تن تنہا انہیں مسندِ اقتدار تک لے جائیں گے۔ ٹھیک ہے عوام بھی ضروری ہیں لیکن اس سے زیادہ ضروری ”اپنا بندہ‘‘ ہے جس کیلئے بہت جلد اسلام آباد کا شہر پانی پت کا میدان بننے والا ہے۔سوال یہ ہے اگر عمران خان کو مرضی کا الیکشن یا مرضی کا بندہ نہیں ملاتو وہ کیا کریں گے؟ نومبر گزر گیا اور نئی تعیناتی ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟
میرا خیال ہے عمران خان کا پانی پت کی طرف مارچ انہیں نقصان پہنچائے گا۔ موجودہ حکومت تو چاہے گی کہ اسے 12 اکتوبر 1999ء کی طرح ہٹا دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ مقتدرہ مخالف بیانیہ اختیار کرکے اپنا گرتا ووٹ بینک ریکور کر لے۔ ریاض پیرزادہ اور خواجہ آصف کی اسمبلی میں تقریروں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ شریفس بھی یہی چاہتے ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی حل نہیں کہ وہ دوبارہ 12 اکتوبر 1999ء کی پوزیشن پر چلے جائیں۔ لیکن اگر پانی پت کا میدان زیادہ گرم ہو گیا تو کون جانتا ہے کہ پھر کوئی نیا سیٹ اَپ بن جائے اور ان سیاستدانوں کی لڑائی سے کچھ عرصہ کے لیے جان چھڑا کر سب کو گھر بھیج دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا فائدہ موجودہ حکومت کو ہوگا اور سب سے بڑا نقصان عمران خان کو ہوگا جو خود کو اگلا وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ اس وقت شریفوں سے زیادہ عمران خان کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ شریفس پاور لے کر پھنس چکے‘ عمران خان پاور لینے کے لیے بے چین ہورہے ہیں اور ان سے صبر نہیں ہوپا رہا اور یہیں وہ نقصان اٹھائیں گے۔ ایک کہاوت ہے خدا اچھی چیزیں ان کیلئے محفوظ رکھ چھوڑتا ہے جو صبر اور انتظار کرتے ہیں اور خان صاحب کے پاس ان دونوں خوبیوں کی شدید کمی ہے۔