khawateen sahafion ne media bill mistrad kardia

خواتین صحافیوں نے میڈیا بل مستردکردیا۔۔

معروف خواتین صحافیوں ، اینکرز، شعراء و ادبا نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو میڈیا کنٹرول اتھارٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، مقررین کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں آزادی صحافت سلب اور میڈیا ورکرز کے معاشی قتل کے بعد اب حکومت پی ایم ڈی اے کے قیام سے ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے جہاں آنکھ ، کان اور زبان بند کر دی جائے، اگر فواد چودھری ورکر صحافیوں سے عملی ہمدردی کرنا چاہتے ہیں تو اخباری مالکان نے معاشی بحران کے نام پر جن ورکرز کو نکالا تھا انہیں بحال کرانے اور ان کی تنخواہوں سے کاٹی گئی رقوم بقایا جات کی صورت میں واپس دلانے میں اپنا کردار ادا کریں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 12 ستمبر کو آزادئ صحافت دھرنا کی تیاریوں کے سلسلے میں منعقدہ فی میل جرنلسٹس پریس فریڈم ویبینار سے خطاب کرتے ہوے کیا،  روزنامہ جنگ کے مطابق مقررین میں نامور شاعرہ، مصنفہ و کالم نگار کشور ناہید ، ناصرہ زبیری، سابق سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے فوزیہ شاہد،سینئر صحافی و اینکر عاصمہ شیرازی ،امبر شمسی ، منیزے جہانگیر،غریدہ فاروقی ، نادیہ مرزا ،نادیہ نقی،عائشہ بخش،ثنا ہاشمی،تنزیلہ مظہر،ابصا کومل، شکیلہ جلیل،فوزیہ کلثوم رانا،فرزانہ علی،عفت حسن رضوی، نادیہ راجہ،سحرش کھوکھر،عائشہ ناز، سیماب ستی،افشاں قریشی،عائشہ خالد،جویریہ صدیق،مونا خان،آمنہ علی الپیال،فرح ناز،فائزہ شاہ کاظمی،شازیہ نیئر ،ثوبیہ مشرف،شمیم اشرف،انیلا محمود،عمرانہ کومل روبینہ شاہین، قرات العین حیدر، آرآئی یوجےکی نائب صدر مائرہ عمران، پی آر اے کی واک آؤٹ کمیٹی کی چیئرمین نیئر علی شامل تھیں ، پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی، سابق سیکرٹری جنرل مظہر عباس، آر آئی یو جے کے جنرل سیکرٹری طارق ورک ، صدر عامر سجاد سید ، سابق صدور علی رضا علوی، مبارک زیب خان ، صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم، سیکرٹری انور رضا ، سابق صدر طارق چودھری اور چیئرمین ایکشن کمیٹی افضل بٹ نے بھی اظہار خیال کیا، عاصمہ شیرازی نے کہا کہ یہ ہتھکنڈے ہمارے آزمائے ہوئے ہیں ہم پہلے بھی نہیں جھکے تھے اب بھی نہیں جھکیں گے،حالیہ حکومتی اجلاس میں وزرا کی جانب سے سینئر صحافیوں کی تذلیل سے واضح ہے کہ آنیوالے دنوں میں کیا ہو گا،یہ سب بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے،احتجاج ہو گا اور ہم آزادی کی آخری حد تک جائینگے، یو ٹیوبرز کے ذریعے سینئر صحافیوں کی تذلیل کرائی گئی، اُن کیخلاف ٹرینڈز بنوائے گئے، کشور ناہید نے کہا کہ میڈیا پر پابندیوں کا آغاز جنرل ایوب کے دور سے ہوا جنرل ضیا کے دور میں پابندیاں عروج پہ تھیں ہر قسم کی سینسر شپ تھی لیکن موجود حکومت نے انتہا کر دی ہے،غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ حکومت اب پی ایم ڈی اے کے ڈرافٹ سے مُکر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ صحافیوں کو اس پر بریفنگ دی جائیگی،ہمارے سر پہ ہر وقت قومی سلامتی کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، قومی سلامتی کے نام پر پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اپنی اجارہ داری رکھے گی یہ ڈکٹیٹرشپ کی مثال ہے،ورکنگ صحافی اور وی لاگرز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا گیا ہے، علی رضا علوی نے کہا کہ مسودے کے مطابق اتھارٹی ایک چیئرمین جبکہ 11 اراکین پر مشتمل ہو گی، اتھارٹی کے حکم کو کسی نچلی عدالت یا ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا اور متعلقہ فورم سپریم صرف کورٹ ہو گی،حکومت پرنٹ ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل میڈیا اور فلم کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے،مسودہ کے مطابق تمام افراد اپنے یو ٹیوب اور انسٹا گرام کیلئے بھی پہلے اتھارٹی سے لائسنس حاصل کرینگے جس میں شرائط درج ہوں گی، شرائط پر عمل نہیں ہو گا تو لائسنس کینسل کر دیا جائیگا،اتھارٹی کے قیام کے بعد پیمرا اور میڈیا آرڈیننس ختم اور غیر فعال ہو جائینگے، ڈیجیٹل میڈیا کا سب مواد اتھارٹی کے تابع ہو گا ورنہ غیر قانونی تصور ہو گا، مسودہ وزارت قانون بھجوا دیا گیا ہے،صحافی نادیہ مرزا نے کہا کتنی بھی کوششیں کر لی جائیں لیکن صحافت کی حرمت کو قائم رکھنے کیلئےمتحد ہونا ضروری ہے، ناصرہ زبیری نے کہا کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بل کی ضرورت کیا ہے اور اسکی سمت کیا ہو گی بہت چیزیں تو پہلے ہی انکے ہاتھ میں ہے، ہمیں بتایا جائے کہ کون کونسے نو گو ایریاز ہیں،کچھ صحافی حکومت کو پسند نہیں کیونکہ وہ معاشرتی معاملات کی بات کرتے ہیں ہمیں اپنے ملک،مذہب اور سرحدوں سے پیار ہے لیکن خبر دینے کی آزادی ہونی چاہئے، منیزے جہانگیر نے کہا کہ آج کی صحافت اینکر ازم بن چکی ہے سابق فاٹا کے صحافیوں کو کیوں نکالا گیا ہے آنیوالے دور میں اچھی صحافت کا ہونا بہت ضروری ہےہم زبان بندی کر کے چائنہ اور سعودی عرب کی طرح نہیں بیٹھ سکتے، عائشہ بخش نے کہا کہ سوال پر ہی پابندی لگائی جا رہی ہے حکومت چاہتی ہے صحافت ایسے ہونی چاہئے جیسے ہم چاہتے ہیں پہلے قوانین موجود ہیں اس پر عمل تو کیا جائے اب ہمارا سوال کرنا ہی جرم بن جائیگا صحافیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے لالچ دینے کی کوشش کی جارہی ہے اگر حکومت نے ہی صحافیوں کے کام خود کرنے ہیں تو صحافی کیا کرینگے،تنزیلہ مظہر نے کہا کہ صحافیوں کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے باقی کا استحصال کیا جا رہا ہے ہم تنگ دستی برداشت کر لیں گے لیکن صحافت کو بچائیں گے آزادی اظہار ہم سب کا حق ہے ہم سب نے ملکر اس حق کوبچانا ہے،فوزیہ شاہد نے کہا کہ ہم نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے ہمیں اپنی صحافت کی آزادی کے جنگ لڑنی ہے، مظہر عباس نے پی ایف یو جے کے سابق قائدین کی جد و جہد کے بارے میں شرکاء کو تفصیل سے آگاہ کیا،ناصر زیدی نے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی صحافت پابند سلاسل رہی ہے ، پی ایف یو جے نے جد و جہد کا راستہ اختیار کیا اور ان قوتوں کا مقابلہ کیا جو صحافت کو دبانا چاہتے تھے صحافیوں کا معاشی قتل ہوتا رہا ہے یہ جنگ ہم نہیں لڑنا چاہتے تھے لیکن یہ ان قوتوں نے شروع کی ہے جو آزادی صحافت نہیں چاہتے صحافی اپنا حق لینے کیلئے میدان عمل میں رہیں گے ،صحافیوں کو دبانے کیلئے قوانین بنتے رہے ہیں جن کیخلاف ہم جنگ لڑتے رہے ہیں ملک میں غیر اعلانیہ سنسر شپ ہے ہم اسکو برداشت نہیں کرینگے پریس پر پابندیاں قابل قبول نہیں، پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے ڈنڈا چلانے کی کوشش کی جارہی ہے،ہم زنجیریں توڑینگے صحافیوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اس تحریک کو کامیاب کروائیں گے ،پی ایف یو جے کی لیڈر شپ منتخب ہوتی ہے فواد چوہدری کٹھ پُتلی ہے پیچھے ڈوریاں ہلانے والے اور ہیں ہمیں پتہ ہے جد و جہد کے راستے کھٹن ہوتے ہیں۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں