خصوصی رپورٹ۔۔
کراچی پریس کلب کی جانب سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صحافی ممبر خواتین کی خدمات کے اعتراف میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پرشعبہ صحافت میں نمایاں خدمات ادا کرنے والی خواتین صحافیوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ تقریب سے مہمان خصوصی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی)کی ڈائریکٹر جنرل ارم تنویر ، سنیئر صحافی اور شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کی سابق سربراہ پروفیسر شاہدہ قاضی، چیئر پرسن آف سندھ کمیشن نزہت شریں، پاکستان تحریک انصاف کراچی کی صدر فضہ ذیشان، جماعت اسلامی کراچی کی اسما سفیر، صارم برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کی وائس پرسن عالیہ صارم برنی، ریڈیو پاکستان کی پروڈیوسر ناہید ضمیر اور سابق بیڈمٹن، ٹینس اور ہاکی کوچ ماہیہ معین، سینئر صحافی و رائٹر رضیہ سلطانہ، کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی ، سیکریٹری شعیب احمد اور ممبر گورننگ باڈی کلثوم جہاں نے خطاب کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی)کی ڈائریکٹر جنرل ارم تنویرنےکہا کہ میں 2002 میں بیوروکریسی میں آئی تو اس وقت بھی تین چار خواتین ہوتی تھیں، اب اتنی ساری خواتین کو فیلڈ میں دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود عورتوں کے ساتھ کئی عرصے سے ناانصافیاں ہورہی ہیں، خواتین کو وارثت میں اب تک حصہ نہیں ملتا۔ ان کو اپنا حق مانگنے کیلئے بھی خود لڑنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر خواتین کو فیصلہ سازی کے اختیارات ملیں تو وہ دوسری خواتین کی بہتر مدد کرسکتی ہیں اوراچھا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ سینئر صحافی اور شعبہ ابلاغ عامہ کی سابق سربراہ پروفیسر شاہدہ قاضی نے کہا کہ خواتین کے حقوق ایک خاندان اور معاشرے کے مشترکہ حقوق ہیں، خواتین کی آزادی اور ترقی تعلیم، روزگار اور معاشرتی اخلاقی اور مشترکہ ذمہ داریوں کو مکمل کرنے میں ہیں۔عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سندھ حکومت کی قائم کمیشن کی سربراہ نزہت شیریں نے کہا کہ سندھ حکومت اور سندھ اسمبلی نے خواتین کے حقوق کے کئی قوانین منظور کیے ہیں اور صوبے میں خواتین سے زیادتی اور تشدد کے خلاف فوری طور پر مقامی پولیس اپنی قانونی کارروائی شروع کر دیتی ہے، مگر اب معاشرے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کافی کام کر نے کی ضرورت ہے۔ صدر جماعت اسلامی خواتین ونگ کراچی اسماء سفیر نے کہا کہ عورت اور مرد معاشرے کے دو پہیے ہیں، اسلام نے دونوں کے حقوق اور حدوں کو مقرر کیا ہے، اسلام میں عورت کا بڑا رتبہ موجود ہے مگر عورت مرد کے بغیر ادھوری ہے، عورت کو تعلیم، ٹیکنالوجی کے ہر شعبے میں آگے آنا ہوگا، جماعت اسلامی اس شعبوں میں بڑا کام کررہی ہے۔پی ٹی آئی کی رہنما فضا ذیشان نے کہا کہ خواتین سماج کی آدھی آبادی ہے، اس کو اپنی طاقت کا احساس ہونا چاہیے، ہمارے معاشرے میں سیاست میں کام کرنے والی خواتین کے خلاف غیر اخلاقی الزامات کے ساتھ ان کو ٹوکا جاتا ہے، نامور صحافی اور ادیب رضیہ سلطانہ نے کہا کہ کئی خاندانوں میں عورت کو تعلیم اور ترقی میں اپنے گھر کے مردوں کی مدد حاصل نہیں ہوتی ہے پھر بھی وہ آگے نکل جاتی ہیں، میں نے بھی اپنے گھر کے مردوں کی ہمت افزائی اور مدد کے بغیر اپنا مقام حاصل کیا ہے۔کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی نے کہا کہ جب تک ریاست میں جمہوری کلچر اور جمہوریت کی پاسداری نہیں کی جائے گی۔ معاشرے میں خواتین کے حقوق اور دیگر انسانی حقوق متاثر ہوتے رہیں گے اور اور سب سے بڑا مسئلہ ملک اور صوبے میں موجود خواتین کے حقوق کے متعلق قوانین پر عمل کرنے کا ہے۔کراچی پریس کلب کے سیکریٹری شعیب احمد نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی بات کرنے کے ساتھ ان کی عزت اور احترام کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، خواتین کو اپنے حقوق کی بات کرنے کے دوران منفی رویہ اختیار کرنے سے ان کے حقوق کی تحریک متاثر ہوگی۔ خواتین کی ہرایسمنٹ کو روکنے کے ساتھ ان کے جائیداد کے حقوق اور دیگر معاشرتی حقوق کی بھی بات کرنی چاہیے، کراچی پریس کلب ملک کا واحد ادارہ ہے جہاں 200 خواتین ممبرز ہیں اور کلب خواتین ممبران کی فلاح و بہبود میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔ تقریب کے آخر میں صحافیوں میں ایوارڈ تقسیم کئے گئے اورمہمان خصوصی اور دیگرمقررین کو شیلڈز اور گلدستہ پیش کیے گئے۔ایوارڈ حاصل کرنے والی صحافیوں میں ڈاکٹر ہما احمد سابق ایڈیٹر دی نیوز ،شہر بانو، روبینہ یاسمین، عابدہ گوہر ، عندلیب رضوی، اسما احمد، فائزہ الیاس، گل نسرین اختر، عابدہ رفیع، حمیرابانو موسیٰ، ہما عامر ملک، ارم نور، لبنیٰ خالد، معراج فاطمہ ، روبینہ جبار، سلمیٰ رضا، ثریا بانو، سحر حسن، سمیہا خالد، عظمیٰ عبرین قاضی ، زکیہ بتول،بشریٰ خالد، ارم زیدی، مریم حسن، کوکب رانی، اسما ایوب، سعدیہ قمر، نورین شمس ،لبنیٰ ممتاز اور صباء سلطان شامل ہیں۔اس موقع پر کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی کی رکن کلثوم جہاں،ذوالفقار راجپر، شمس کیریو،فاروق سمیع ، رمیض وہرہ اور انتظامی کمیٹی کی رکن ناردہ مشتاق، شیما صدیقی، رباب ابراہیم، مونا صدیقی سمیت میڈیا سے وابستہ دیگر خواتین بھی موجود تھے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔