تحریر: تنزیلہ مظہر۔۔
صحافت اپنے ارتقاء کے ایک نئے دور سے گزر رہی ہے۔ اس نئے دور کے اپنے تقاضے اور اپنی منفرد پیچیدگیاں ہیں۔ زیادہ تر صحافتی ادارے روایتی طرز کی صحافت سے ڈیجیٹل میڈیا پر منتقل ہو چکے ہیں۔ معلومات کی ترسیل مزید تیز ہو چکی ہے۔ لیکن ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ مشکلات بھی ہیں، جن میں سے ایک مشکل صحافیوں کے خلاف چلائے جانے والی سوشل میڈیا کی منظم مہمات ہیں جو آزادی صحافت کے لیے ایک خطرہ ہیں۔
اگر ہم بالخصوص خواتین صحافیوں کی بات کریں تو بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر بھی خواتین صحافیوں کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔ ان کو اپنے کام کے ردعمل میں ذاتی اور غلیظ حملوں کا شکار بنایا جاتا ہے، جس سے ڈر کر کچھ خواتین صحافی سوشل میڈیا پر بات کرنا ترک کر دیتی ہیں اور کچھ اپنے موضوعات بدل لیتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں خواتین صحافی شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہیں۔
مختلف ممالک میں یہ آن لائن حملے ایک منظم مہم کی صورت میں کیے جا رہے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد خواتین صحافیوں کو کام کرنے سے روکنا یا ان کے کام کی نوعیت پر اثر انداز ہونا ہے، جو سراسر آزادی صحافت پر قدغن ہے۔
خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد اپنے اوپر ہونے والے سوشل میڈیا حملوں کو رپورٹ کر چکی ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق پوری دنیا کی صحافی خواتین اپنی تحریروں، تبصروں اور دیگر صحافی ذمہ داریوں کو نبھانے کے جواب میں سوشل میڈیا پر سنگین دھمکیوں، بے ہودہ اور اخلاقیات سے گری ہوئی مہم کا شکار رہتی ہیں۔ اگرچہ مرد صحافی بھی آن لائن حملوں سے محفوظ نہیں ہیں مگر بدقسمتی سے جنسی بنیاد پر روا رکھے جانا والا تعصب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی اسی طرح نمایاں ہے۔
مختلف عالمی اداروں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق دنیا کے تمام خطوں میں کام کرنے والی صحافی خواتین کو آن لائن ٹرولنگ میں بے ہودہ القابات، گھٹیا جملوں کے علاوہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے اور جنسی زیادتی سے لے کر قتل تک کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آن لائن ٹرولنگ کا بظاہر اس امر سے کوئی تعلق نہیں کہ خاتون صحافی کس موضوع پر لکھ رہی ہوتی ہے۔ خواتین کو ان کے لکھے گئے سب آرٹیکلز کے جواب میں ایسے کمنٹس اور پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ وہ کس نوعیت کے جنسی تشدد کی حقدار ہیں۔
اکثر خواتین کو یہ پیغام بھی ملا کہ وہ کس بے دردی سے قتل کیے جانے کے قابل ہیں۔ خواتین صحافیوں کے خاندان اور ان کی رہائش کے متعلق معلومات بھی پوسٹ کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بے ہودہ جنسی نوعیت کے جملے اور ظاہری شکل و صورت پر اخلاقیات سے گرے ہوئے تبصرے، گالی اور ہتک آمیز جملے وہ مشترکہ تجربات ہیں جو دنیا کے ہر خطے میں کام کرنے والی صحافی خواتین کو سائبر سپیس میں ہوئے۔ بد قسمتی سے سیاسی یا نظریاتی اختلاف کے بجائے عورت کی جنس کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آخر خواتین پر ان کے کام کے ردعمل میں ایسے حملے کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں اس صنفی تفاوت کی طرف لے کر جائے گا جس کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔ خواتین کے لیے ہر معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنا مردوں کی نسبت زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ گھٹن زدہ لوگ ایسے ہیں جو خواتین کو کسی جگہ پر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ سوشل میڈیا پر بھی بلا جواز بے ہودگی کا مقصد خواتین کو یہ احساس دلانا ہے کہ یہ جگہ ان کے لیے تنگ ہو رہی ہے۔ خواتین کو جنسی طور پر ہتک کا نشانہ بنانا بھی اسی ذہنی بیماری کا شاخسانہ ہے۔
لاطینی امریکہ کی خاتون صحافی کلاڈیا کا ماننا ہے کہ جب وہ کوئی خبر اپنے سوشل میڈیا پر جاری کرتی ہیں تو اس پر انہیں کم ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی معاملے پر اپنا تبصرہ یا تجزیہ پیش کریں تو انہیں بہت زیادہ ذاتی حملوں، گالیوں اور بے ہودہ جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں کی جانے والی تحقیق ان ہی مسائل کی طرف اشارہ کرتی ہے جو لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کی خواتین بیان کرتی ہیں۔
عالمی پریس فریڈم ڈے کے حوالے سے منعقدہ گلوبل لیب میں دنیا کے پانچ براعظموں سے تعلق رکھنے والی صحافی خواتین نے ایک جیسے خطرات اور ڈر بیان کیے۔ ان تمام خواتین کو آن لائن حملوں اور ٹرولنگ کے بعد یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ جنسی زیادتی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ انہیں اغوا یا قتل کا خوف بھی رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کا کام، ذہنی سکون اور ذاتی زندگی کے معمولات بری طرح متاثر ہوئے۔
مختلف اداروں کے جانب سے کی جانے والی ان تحقیقات پر نظر دوڑائیں تو ان حملوں میں خواتین صحافیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے، جنسی تشدد اور قتل کیے جانے کی دھمکی سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ پین امریکن کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق اگر صرف امریکہ کی بات کی جائے تو کئی خواتین صحافی یا تو صحافت کو خیرباد کہہ گئیں یا پھر وہ اپنی اسائنمنٹ قبول کرتے ہوئے متوقع ٹرولنگ کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
’دا گارڈین‘ کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بھی یہی صورتحال نظر آئی جس میں کام کرنے والی خواتین نے مختلف اسائنمنٹس لینے سے یا تو مکمل انکار کرنا شروع کر دیا یا پھر انہوں نے اپنی تحریروں کے موضوعات بدل دیے۔
صحافیوں پر کیے جانے والے یہ حملے اس لیے بھی زیادہ بڑا خطرہ ہیں کہ آن لائن کی جانے والی یہ ٹرولنگ بعض واقعات میں حقیقی خطرہ بن کر دنیا میں کئی صحافیوں کی جان لے چکی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں کام کرنے والی خاتون صحافی گوری لنکیش کو ان کے بنیاد پرستوں کے بارے میں لکھے جانے والے آرٹیکلز کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حملوں میں انہیں قتل کیے جانے کی واضح دھمکیاں تھیں اور پھر 2017 میں انہیں قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کے الزام میں گرفتار مجرموں نے قتل کی وجہ گوری لنکیش کے لکھے گیے آرٹیکل بتائی۔
صحافیوں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیمیں اس حوالے سے موثر پالیسی سے محروم ہیں جبکہ صحافی تنظیمیں آن لائن سنسرشپ کے اثرات پر ابھی تک خاموش ہیں۔ پاکستان میں بھی صحافیوں کو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر مہم کا سامنا رہتا ہے اور کئی خواتین صحافی ان حملوں کا شکار ہیں۔ حکومت کے پاس ایسا کوئی فریم ورک نہیں جس کے تحت اس سارے مسئلے کا مناسب حل تلاش کیا جا سکے۔ جب تک اس سلسلے کا سد باب نہیں کیا جائے گا دنیا کی خواتین صحافی نفسیاتی دباؤ کا شکار رہیں گی۔۔(بشکریہ انڈی پینڈینٹ)