تحریر: ملک محمد سلمان۔۔
چند سال قبل میں نے ایک فیس بک پوسٹ لگائی تھی
How can girls have Latest iphone without having a job, it is even beyond the reach of senior officers and businessmen.
اگر نیو ماڈل آئی فون، گاڑی، جیولری،مہنگے برانڈ آپکی وش لسٹ ہے اور یہ سب کچھ فوری اور بغیر محنت کے چاہئے تو ایسی صورتحال میں “شوگر بےبی” بننا حیران کن نہیں۔میں اکثر کہتا ہوں کہ اپنے خواب چھوٹے رکھو بڑی خواہشات کی تکمیل کیلئے”شارٹ کٹ“آپکو کریمینل بنا دیتا ہے۔
شوگر ڈیڈی ایک امیر بابا جو مہنگے مہنگے گفٹس اور پیسے کے بدلے کسی جوان لڑکی یا عورت کی قربت اور ساتھ خریدتا ہے۔شوگر ڈیڈی اپنی تسکین کے عوض کم عمر لڑکیوں کے تمام اخراجات و ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ کم عمر پارٹنر شوگر بےبی کہلاتا ہے۔چلیں مان لیا آپ اخلاقیات، سماج، روایت، کلچر، مذہب کسی دائرے کو خاطر میں نہیں لاتے اور میری زندگی میری مرضی جب آپ اس سب کے بدلے طے شدہ مالی فوائد حاصل کررہی ہیں تو پھر بلیک میلنگ تو کسی صورت جسٹیفائڈ نہیں۔حیوانوں کی دنیا کے بھی اصول ہوتے ہیں مگر انسانوں کی یہ دنیا ہر اصول سے ماورا ہو چکی ہے۔
درجنوں نہیں سینکڑوں افسران اور سیاستدانوں سمیت عام افراد کے خلاف جنسی زیادتی کی درخواستیں دائر ہوتی ہیں جو بھاری رقوم کے عوض صلح صفائی میں بدل جاتی ہیں۔سرکاری افسران سب سے آسان ٹارگٹ بن چکے ہیں۔ایسے گینگ پہلے خوبصورتی کا جال بچھاتے ہیں پھر پھنساتے اور بہلاتے ہیں اور آخر پر زبردستی جنسی تعلقات کا الزام لگا کر بلیک میل کرکے منہ مانگی رقوم لی جاتی ہیں۔98فیصد واقعات میں ایف آئی آئی آر درج ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی اور بند کمرے میں ہی ڈیل ہوجاتی ہے۔اس غلیظ دھندے میں جو جو ملوث ہے اور سہولت کاری کر رہا ان تمام کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے تاکہ نیکسٹ کوئی کسی کو بلیک میل نہ کرسکے۔
کہتے ہیں نہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کے مصداق جو کوئی مرد و زن باہمی مفادات اور رضامندی کے تحت کسی سے جیسے بھی تعلقات میں ہے ہمیں رائے دینے یا بدنام کرنے کا کوئی حق نہیں یہ انکا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ہاں اگر کوئی بھی فریق کسی کے ساتھ زیادتی یا بلیک میل کرتا ہے تو ظالم اور بلیک میلر کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔
اس معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے جوڈیشری،سی آئی اے، ایف آئی اے، آئی بی،ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سنئیر افسران پر مشتمل ایک جی آئی ٹی بنانی چاہئے۔ ایسی تمام درخواستوں کا ریکارڈ اکٹھا کیا جائے اورتحقیقات کرکے ایسے تمام نیٹ ورکس کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائی۔
گرلز ہاسٹل کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اس وجہ سے نہ صرف گرلز ہاسٹل کی لڑکیاں ٹریپ ہوتی ہیں بلکہ کچھ واقعات میں لڑکیوں کو ہاسٹل انتظامیہ خود ہی ”ایزی ارننگ “ کی منزل تک پہنچارہی ہوتی ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق اٹھارہ سے پینتیس سال کی کالج یونیورسٹی کی طالبات اور نوکری پیشہ لڑکیوں میں سے بیس فیصد کی زندگی میں ”سپانسر“ رہا ہوتا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہر جگہ افسران ہی معصوم ہوتے ہیں ڈی پی ایس قصور سکینڈل سمیت درجنوں واقعات میں افسران نے خواتین کو نوکری کے جھانسے دیکر ٹریپ کیا۔ایک سی ایس ایس آفیسر کوایک بڑے پراجیکٹ کا ہیڈ بنایا گیا تو اس نے لڑکیوں کو ٹریپ کرنا شروع کیا کہ میں سو ارب سے زائد کے پراجیکٹ کا ہیڈ ہوں تمہیں امیر کردوں گا۔ایک جاننے والی خاتون نے اس کی غلیظ چیٹ دکھائی تو میں نے وزیراعظم کو ٹیکسٹ کرکے اس گھٹیا صفت کو او ایس ڈی کروایا لیکن محض تین ماہ بعدوہ اپنا سپلائی چین کا مضبوط نیٹ ورک استعمال کر کے دوبارہ اچھی پوسٹنگ پر آگیا۔آپ اندازہ لگا لیں کہ سپلائی چین کا کیسا اہم تعلق ہوگا کہ وزیراعظم کے کہنے پر او ایس ڈی ہونے والے کے خلاف کوئی انکوائری نہ ہوسکی اور چند ماہ بعد اسی صوبے میں اچھی پوسٹنگ انجوائے کر رہا ہے۔آج کل وہی مذکورہ جنسی درندہ ایک ایسے صوبائی سیکرٹری کے ساتھ ہے جو خود اس بے غیرتی کا چیمپئین ہے۔مذکورہ جنسی درندہ سی ایس ایس اکیڈمی کی آڑ میں معصوم بچیوں کو ٹارگٹ کرتا ہے کسی کو فیس معافی کا کہہ کر تو کسی کو کلاس میں ”ایکسٹرا فیور“ دیکر چوہدرانی بنا کر۔ایک لڑکی کو آفر کی تم ایویں ہی گرلز ہاسٹل میں دھکے کھا رہی ہو تمہیں اے سی فلیٹ لے دیتا ہوں،اس گھٹیا آفر پر اس لڑکی نے مذکورہ آفیسر کے منہ پر تھپر رسید کر کے اکیڈمی چھوڑ دی۔اس جنسی درندے کی ہاف سے زیادہ خواتین بیچ میٹ نے اسکو واٹس اپ اور فیس بک سے بلاک کر رکھا ہے۔سی ایس ایس اکیڈمیزکے نام پر چند منچلے افسران سستے”مینٹور“ بن کر جو گل کھلا رہے ہیں ان اکیڈمیز کا تفصیلی تذکرہ پھر کبھی سہی۔شاید آپکو میرے الفاظ کا چناؤ بُرا لگ رہا ہو لیکن حقیقت سے منہ چھپانے کی بجائے اپنے ارد گرد کے ایسے غلیظ کرداروں کو پہچاننے کی کوشش کریں جو بغیر کسی محنت کے دیکھتے ہی دیکھتے دنوں میں امیر ہوگئے۔
چند خواتین اینکرز نے بھی تگڑے سیاستدانوں اور افسران تک رسائی کیلئے اپنا آپ لٹاکر انکا سب کچھ لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔آخر پر ان تمام صاحبان جو شوگر ڈیڈی بننے کی حسرتیں پالے بیٹھے ہیں، ان کومفت مشورہ ہے کہ دھیان رکھیے گا شوگر بے بی، کہیں کڑوی بے بی نہ بن جائے۔(ملک محمد سلمان)۔۔