khawateen anchors ki kuch sachi baatein by saddam tufail hashmi

خواتین اینکرز کی کچھ سچی باتیں۔۔

تحریر: صدام طفیل ہاشمی

آج سے تین سال پہلے اقوام متحدہ کی سترویں جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکہ جانا ہوا۔ کام کے ساتھ تفریح اور سڑکیں ناپنا بھی اپنا خاصا ہے۔ اس سے نہ صرف کسی ملک کے کلچر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ حقائق بغیر کسی تردد کے سامنے ہوتے ہیں۔ بروکلین ، نیو یورک میں سینیئر صحافی عظیم میاں کے گھر پڑاؤ ڈالا۔ ایک دن رات میں قریبی واقع پارک کا رخ کیا اور جا بیٹھا ایک بینچ پر اور سڑک کنارے اس بینچ پر بیٹھے جو دیکھا وہ بھلا نہ پایا۔۔۔۔ رات بارہ بجے سے اوپر کا کچھ وقت تھا اور تین لڑکیاں جن کی عمریں شاید 16،17سال ہو گی حجاب زیب تن کیئے سامنے سے آتی دکھائی دیں۔۔قریب سے گزریں تو صاف اردو نے واضح کر دیا کہ مسلمان ہونے کے ساتھ پاکستانی ہیں۔۔ ننھی پریاں بغیر کسی خوف کے گپ شپ میں مگن سامنے سے گزر گئیں لیکن سوچ کے نئے در وا کر گئیں۔ میں سوچنے لگا کہ کیا رات کے اس پہر مملکت خداداد میں تین بچیاں اکیلی یعنی بغیر گھر کے کسی مرد کے کسی پارک میں اتنے سکون سے چہل قدمی کر سکتی ہیں؟ جواب ظاھر ہے منفی تھا۔۔ میں سوچنے لگا کہ وطن میں اگر یہ بچیاں کسی پارک میں چہل قدمی کے بعد بخیریت نکل بھی آتیں تو انہیں حجاب کے باوجود نجانے کس نگاہ سے دیکھا جاتا۔۔ ماشا اللہ ہر گناہ کے بعد پارسائی کا ڈھونگ رچانے والے کیا کلمات کہتے ان معصوموں کے بارے میں، ظاہر ہے بد کردار شخص ہی دوسروں کی کردار کشی کرتا ہے اور ایسے لوگ معاشرے میں گٹر باغیچے میں اگنے والی سبزیوں کی طرح وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔۔ اللہ کا فرمان ہے کہ جو کسی کا پردہ رکھے گا میں اس کا پردہ رکھوں گا یعنی اگر کسی کے عیب سے واقف بھی ہو تو پردہ رکھو لیکن یہ صاحبان تو اپنے گھر کے ماحول کو مد نظر رکھ کر دوسروں کو تولتے ہیں اور ہر دوسری لڑکی پر الزام عائد کر دیتے ہیں۔۔ ایسے عناصر ہر عورت پر الزام عائد کرتے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کسی عورت کے ہی بطن سے جنم لیا ہے۔۔ ایسے لوگوں کے لیئے شاید عورت محض ایک جنس تفریح ہے۔۔ ایسے لوگ ان خواتین کو جو اپنے بلکتے بچے کی بھوک کی خاطر یا نجانے کس مجبوری کی خاطر اپنی عزت کا سودا کرنے نکلتی ہیں انہیں ویشیا کہتے ہیں۔۔ ان میں سے بیشتر ان مجبور خواتین کی مدد کے لیئے بھی ہر دم تیار رہتے ہیں۔۔ معاشرے میں پارسائی کا ڈھونگ رچاتے یہ لوگ رات کی تاریکی میں اکثر ایسی خواتین کی تلاش میں نکلتے ہیں اوربے سہارا اور مجبور عورت کی مجبوری کو خرید کر اس کی مدد کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے دفتروں میں وحشت زدہ نگاہیں دوڑاتے ہیں اور جو عورت ان کے دام میں نہ آئے اسے ویشیا کے خطاب سے نواز دیتے ہیں۔۔ میڈیا ہائوسز کا بھی حال اس سے کچھ خاص مختلف نہیں۔۔ ماضی میں ایک معروف ٹی وی چینل میں ملازمت کے دوران ایک خاتون نیوز اینکر نے مجھ سے شکایت کی کہ باس انہیں مستقل پریشان کر رہے ہیں کبھی ان کی ڈیوٹی شفٹ اچانک بدل جاتی ہے اور کبھی انہیں دیر تک روک لیا جاتا ہے ، کبھی انہیں آف ایئر کر دیا جاتا ہے اور کبھی معمولی بات پر سب کے سامنے ڈانٹ دیا جاتا ہے۔۔ محترمہ نے بتایا کہ وہ اسٹوڈیو سے باہر نیوز روم میں بیٹھنے سے اس لیئے گریزاں ہے کہ موصوف اپنے روم میں بیٹھے شیشے سے پار انہیں ایکسرے لیتے محسوس ہوتے ہیں۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہ ہمیں صحافی لیڈر سمجھ کر اپنا مدعا بیان کر رہی تھیں کیونکہ ہم کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔۔ہم انہیں کیا بتاتے کہ بی بی ہم بھی آپ ہی جیسے ملازم ہیں خیرانہیں وقتی طور پر دلاسا دیا اور ہمت بڑھائی کہ گھبرائو مت ہم تمھارے ساتھ ہوں۔۔ انہیں دلاسا دیتے کہا کہ وہ جب بھی گھوریں تو ہماری کرسی کے دائیں جانب آکے بیٹھ جایا کرو۔۔ اگلے ہی دن وہ ہمارے دائیں جانب آبیٹھیں معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہم نے نگاہیں گھمائیں تو محترمہ کی بات درست ثابت ہوئی۔۔ نجانے کیوں ہم بھی ان موصوف کا ایکسرے کرنے لگے وہ صاحب جز بز ہو گئے اور نگاہیں چرا لیں۔۔نیوز بلیٹن کے لیئے وہ محترمہ تو چلی گئیں لیکن ہم سوچنے لگے کہ نہ ہم کوئی بڑے صحافی لیڈر ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا دست شفقت ہمارے سر ہے تو معاملہ سنگین ہے۔۔ باس صاحب جب چاہیں ہمیں گھر کی راہ دکھا سکتے ہیں کیونکہ صحافی یونینز کو منصوبہ بندی کے تحت کمزور کر دیا گیا ہے اور پھر طرہ یہ کہ ہماری صفوں سے مینیجمنٹ میں شامل ہونے والے ہمارے ساتھی ہی برادری کے لیئے مشکلات پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔۔ اپنی کرسی قائم رکھنے کے لیئے ایک جانب ورکرز کو تو دوسری جانب مالکان کو بیوقف بناتے رہتے ہیں۔۔ جب جی چاہے ذاتی بغض،عناد یا احساس کمتری کے باعث کسی بھی صحافی کو فارغ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مالکان کا فیصلہ ہے۔۔ دوسری جانب مالکان کو گمراہ کرتے ہیں کہ یہ ملازمین تو نالائق تھے ان کا جانا ہی ادارے کے مفاد میں ہے۔۔ خیر صاحب ہم یہ تو بھانپ گئے تھے کہ ان محترمہ کے بچائو کی خاطر نوکری دائو پہ لگ چکی ہے پر غیرت کو گوارہ نہ تھے کہ پیچھے ہٹ جائیں۔۔ پھر یوں ہوا کہ باس صاحب کی نافرمانی کے باعث وہ محترمہ تو نوکری سے گئیں اور ہم حق کا ساتھ دینے کے باعث عتاب کا شکار ہوئے۔۔ یہ اور بات ہے کہ ڈٹ کر کام کرتے رہے اور وقت آنے پر اپنی مرضی سے استعفی دیا کیونکہ ایکسپریس نیوز جیسے مستند میڈیا ہائوس میں جاب آفر ٹھکرانا کفران نعمت ہوتا۔۔اسی طرح ایک دوسرے چینل سے ایک خاتون نیوز اینکر نے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا اور بتایا کہ انہیں ان کے باس نے آف ایئر کر دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ محترمہ ان کی خواہشات کا احترام کریں گی تو وہ بھی ان کی ہر خواہش کا احترام کریں گے۔۔ انجان ہونے کے باوجود حسب عادت ان کی سپورٹ کی اور آج وہ خاتون ایک اچھے نیوز چینل پر خبریں پڑھتی ہیں ۔۔ ایک بہت معصوم سی نیوز اینکر نے چند خواتین کا نام لے کر اپنے مسئلے سے آگاہ کیا۔۔ گلہ اس بچی کا بالکل درست تھا کیونکہ اسکرین پر آنے اور شارٹ کٹ کا سہارا لینے والی چند خواتین کے باعث اچھے گھرانوں کی شریف خواتین کا میڈیا ہائوسز میں کام کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔۔ ایسی خواتین کے باعث ویسا مزاج رکھنے والے باسز ہر لڑکی کو تر نوالہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔۔ظاہر ہے جب غیر صحافی عناصر کو کسی خاص مقصد کے تحت آگے لایا جائے گا تو نہ صرف پروفیشنل صحافی کا استحصال ہوتا ہے بلکہ ایسے عناصر آگے بڑھنے کے لیئے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے سے گریز بھی نہیں کرتے۔۔ آخر میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ایسا نہیں ہے کہ سب ہی غلط ہوں ، میڈیا میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اصلی صحافیوں کو ان کا مقام دیا جائے تاکہ میڈیا جیسے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈال کر اخلاقیات کے دائرے میں سیدھے راستے پر رکھا جاسکے اور مرد و خواتین بلا خوف و خطر اپنے اداروں میں کام کر سکیں۔۔(صدام طفیل ہاشمی)۔۔

(صدام طفیل ہاشمی ایک چینل میں پروگرام اینکر ہیں۔۔ پڑھنے لکھنے سے دلچسپی رکھتے ہیں اس لئے مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے ہیں۔۔ہماری ویب سائیٹ کے لئے ان کی پہلی تحریر ہے، امید کرتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی قلمی تعاون جاری رکھیں گے، عمران جونیئر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں