خطوط کی دنیا کا ایک سفر



تحریر: آسیہ اشرف اعوان

محکمہ ڈاک کا آغاز کب اور کیسے اور کن حالات میں ہواویسے تو اس نظام کا آغاز خود اللہ تعالی نے حضرت آدم سے لے کر اپنے تمام انبیاء کو پیغامات بھیج کر کیایہاں تک کے آخری نبی حضرت محمد ﷺپر پورا قرآن وحی کی صورت میں حضرت جبرائیل کے ذریعے نازل کیا گیا مگر اس وقت پیغام رسانی کا یہ سلسلہ محض ایک سینہ گزٹ تھا لیکن انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنا یا اس نے وقت کے حساب سے ڈاک کے نظام میں تبدیلیاں پیدا کیں اب جہاں تک محکمہ ڈاک اور لفظ پوسٹ کا تعلق ہے تو یہ لفظ پوسٹ فرانسیسی زبان لفظ پوسٹی سے ماخوزہے اب جہاں تک ڈاک کے تاریخ کی بات ہے تو ڈاک کا آغاز 2000 قبل ازمسیح میں ایک چینی بادشاہ نے کیا تھا اس نے گھوڑوں اور خچروں کی مدد سے ڈاک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ سے پہنچانے کا کام کیا مگر ڈاک کا مکمل نظام البرید کے نام سے حضرت عمر نے شروع کیا جسے دیگر خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام نے بھی بتدریج آگے بڑھایا پھر اس نظام کوشیر شاہ سوری نے 1540-1545 تک مزید وسعت دی اور سندہ سے بنگال تک ڈاک کا ایک مکمل نظام تشکیل دیا اس نظام کے تحت تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تازہ دم گھوڑے پڑاؤ تبدیل کر تے ہوئے خطوط کو اپنے منزل مقصود تک پہنچاتے تھے ۔

مورخین کہتے ہیں کہ ملکہ برطانیہ الزبتھ نے بھی 1566-1590تک شاہی میل کا ایک باقاعدہ نظام بھی بنایا تھااب جہاں تک سندہ کی بات ہے تو یہاں انگریزوں نے باقاعدہ طور پر اس نظام کو آگے بڑھانے میں نمایاں کر دار اداکیا جس کے تحت ایک انگریز کمشنر سندہ سر بارٹلے فریئر نے نہ صرف مکمل نظام ڈاک بنایا بلکہ 1852میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا جوکہ سرخ رنگ کا تھا اور اس پر سندہ ڈسٹرک ڈاک درج تھا اس کی قیمت آدھے آنے مقرر کی گئی تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاک کے نظام قائم ہونے سے قبل سندہ میں بھی کبوتروں ، پیادوں،گھوڑوں،خچروں کے ذریعے خطوط بھیجنے کا سلسلہ قائم تھا جوکہ بار ٹلے کے نظام کے بعد مزید ایڈوانس ہوگیا بعد ازاں برصغیر پاک ہند میں پوسٹ آفس ایکٹ 1898کے تحت ڈاک کا نظام قائم کیا گیا اور جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ابتداء میں برطانیہ کے ہی ڈاک ٹکٹ پر پاکستان کی اسٹیمپ لگا کر کام چلایا جاتا رہا پھر 9جولائی1948کو پاکستان زندہ آبادکے نعروں سے مزین ٹکٹ چھاپہ گیا اور اس کے بعد گویا ملک میں ڈاکخانوں کی قطاریں لگ گئیں اور خطوط لکھنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا1947میں ملک بھر میں ڈاکخانوں کی تعداد 3036تھی بڑھ کر اچانک 12339ہوگئی جبکہ شہر کراچی میں بھی ڈاکخانوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے تحت شہر کراچی میں اس وقت 6 جی پی اوز 10ہیڈ پو سٹ آفس4ڈویژن اور لگ بھگ 300ڈاکخانے قائم ہیں ۔

شہر کراچی میں بھی ڈاکخانوں کی تاریخ نئی نہیں بلکہ 19 ویں صدی کی ہے یہاں بھی مختلف طریقوں سے پیغام رسانی کا کام کیا گیا مگر انگریزں کی آمد کے بعد یہاں باقاعدہ طور پر ڈاکخانے قائم کئے گئے آج جہاں میری ویدر ٹاور موجود ہے اس کے پچھلے حصے میں پتھروں کی ایک دو منزلہ عمارت موجود تھی اس سے ڈاک کے نظا م کو چلایا جاتا تھا پھر 1901میں موجودہ جی پی او جوکہ آئی آئی چندر یگر روڈ پر واقع ہے میں ٹیلی گراف آفس کے ساتھ انگریزوں کی دور کی بنی گئی پرانی عمارتوں کو ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس جوکہ پہلے ایک ہی ہوا کرتے تھے استعمال کیا گیا ان میں سے کچھ قدیم عمارتیں آج بھی اپنی زبوں حالی کے ساتھ اپنے ماضی کی داستاں سنارہی ہیں۔آج گوکہ ٹیلی گراف جس کے ذریعے لوگ تار (ٹیلی گرام) بھیجا کرتے تھے جبکہ پوسٹ آفس کا کام لوگوں کو خطوط او مراسلے پہنچانا ہوتا تھا اب یہ دونوں محکمے جو کہ وزارت مواصلات کے زیر نگرانی ہوا کرتے تھے اب الگ الگ کام کر تے ہیں مگر آج بھی یہ دونوں اہم محکمے پرانے میکلو روڈاور آج کے آئی آئی چندریگر روڈ پر ساتھ ساتھ واقع ہیں شہر کراچی جسے ایک گنجان شہر کہہ سکتے ہیں یہاں ڈاک کی کھپت سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی لوگ صبح بیدار ہوتے اوردروازوں پر کھڑے ہوکر ڈاکیے کا انتظار کیا کرتے تھے اگر ڈاکیہ کوئی خوشخبری والا خط لے آتا تو لوگ اس کی تواضع کر تے اور انعام واکرام سے بھی نوازتے تھے اگر کسی محلے میں کوئی ٹیلی گرام آجاتا تو پورے علاقے میں ایک کہرام مچا ہوتا تھا کہ کوئی بری خبر آئی ہے کیونکہ لوگ اکثر اوقات صرف کسی کی موت کی صورت میں ٹیلی گرام بھیجا کرتے تھے اس زمانے میں جوکہ زیادہ پرانا نہیں پوسٹ آفس ہر شخص کی ضرورت تھا ۔

جب انٹرنیٹ ،موبائل ،سوشل میڈیا آیا تو محکمہ ڈاک کافی پیچھے چلا گیا اور لوگوں نے جدید ٹیکنا لوجی سے اپنے مراسلات اور پیغامات بھیجنے شروع کر دئے جسے دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب شاید محکمہ ڈاک کی ضرورت نہیں لیکن اوصاف نے جب اس سلسلے میں پوسٹ ماسٹر جنرل ملک صوبہ خان سے ملاقات کی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ جدید ٹیکنا لوجی آنے اور جگہ جگہ کو ریئر کمپنیز قائم ہوجانے سے محکمہ ڈاک پر فرق ضرور پڑا ہے مگر محکمے نے بھی دورحاضر کے جدید تقاضوں کو اپناتے ہوئے ڈاک کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں بھی کی ہیں جس کے تحت اب محکمہ ڈاک ایک عام آدمی کے بجائے اداروں کی ڈاک کا انتظار کر تا ہے اور آج یہی وجہ ہے کہ بینکنگ سیکٹر سمیت اہم ادارے ڈاک کی تر سیل کا خط کم ہونے پر پوسٹ آفس پر ہی اعتماد کر تے ہیں انہوں نے کہا کہ محکمہ ڈاک ماضی کی طرح عوام اور اداروں کو ڈاک پہنچانے کے لئے سب سے سستی سروس فراہم کر تے ہیں جس کے تحت صرف 8 روپے میں سیاچن گلیشئر سمیت ملک کے اس آخر گاؤں جہاں ایک بندہ رہتا ہو ان کے خطوط پہنچاتے ہیں انہوں نے کہا کہ محکمہ ڈاک کو مزید تیز رفتار اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جارہا ہے جس کے تحت وہ آنے والے وقتوں میں پھر سے وہی مقام حاصل کرے گی جوکہ اس کا خاصہ تھا ۔( آسیہ اشرف اعوان)

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں