khatoon teacher se maafi

خاتون ٹیچر سے معافی

تحریر: امجد عثمانی۔۔

کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تب میں شام کے ایک اخبار میں نیوز ایڈیٹر تھا۔…۔۔شام کے اخبارات کی سرخیاں ایسے ہی چیختی چنگھاڑتی ہوا کرتی تھیں جیسے آج کل یوٹیوب چینلوں کے تھمب نیل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔۔۔۔نارووال کے ایک “کانگڑی پہلوان نما”کلرک نے مجھے ایک دوست کے بھائی کے ذریعے اپروچ کیا۔۔۔۔۔کلرک بادشاہ نے فائلوں کا ایک” دفتر” اٹھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔اس نے دعویٰ کیا کہ یہ فلاں خاتون ایجوکیشن افسر کا کرپشن سکینڈل ہے۔۔۔۔۔میں نے رپورٹر سے کہا کہ یہ خبر فائل کردیں۔۔۔۔میں نے خبر کے متن کی روشنی میں تیز سرخی جمائی اور خاتون افسر کے لیے لفظ “پھولن دیوی” لکھ مارا……اگلے دن اس خاتون نے اپنے کسی عزیز کے توسط سے مجھ سے رجوع کیا……انہوں نے اس خاتون سے ٹیلی فون پر میری بات کرائی…..وہ بولیں….بھائی!آپ نے مجھے بیک جنبش قلم پھولن دیوی قرار دیدیا…..آپ کو اندازہ ہے کہ یہ کتنا توہین آمیز لفظ ہے۔۔۔۔۔ میں نے کل کو اپنی بیٹیوں کی شادی بھی کرنی ہے…….کیا کوئی “ڈاکو رانی”کی بیٹی سے شادی کرے گا……؟؟؟؟ کہنے لگیں میرے خلاف خبر دینے والا کلرک خود کرپشن کی وجہ سے معطل ہے……آپ میرا موقف ہی لے لیتے……میں خاتون افسر کے سامنے لاجواب ہو گیا۔۔۔میں نے بطور صحافی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے اسی وقت ان سے معافی مانگ لی…اگلے دن خاتون افسر کا موقف بھی اسی ڈسپلے میں چھاپا اور  تب سے اب تک کبھی اپنی تحریر میں کسی کریمنل خاتون کے لیے بھی”پھولن دیوی”کا لفظ استعمال نہیں کیا…..شومئی قسمت کہ “بریکنگ نیوز “کے نام پر الیکٹرانک میڈیا کی “کھوتا ریس” ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا کی “اچھل کود “شروع ہوگئی ہے…..اب تو ہر کوئی صحافی اور ہر کوئی اینکر پرسن ہے…..جو چاہے لکھ سکتا اور جو چاہے بول سکتا ہے۔۔۔۔اور معافی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔ہاں کہیں سے جوتے پڑ جائیں تو الگ بات ہے۔۔(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں