تحریر: سید بدرسعید۔۔
کچھ لوگ ہمارے لیے موٹیویشن کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ جنہیں دیکھ کر ہم میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔عام طور پر لوگ اپنے دور کے کامیاب اور امیر ترین لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں ۔ مجھے اپنے دوستوں میں ملیحہ سید نے متاثر کیا ۔ ملیحہ بہت زیادہ امیر نہیں ہے ۔یہ لاکھوں کروڑوں کی مالک بھی نہیں ہے ۔اسکے باوجود مجھے اس کی کہانی نے بہت متاثر کیا ۔
چند برس قبل تک پاکستان کے بڑے روزناموں میں ملیحہ سید کے کالم ریگولر بنیادوں پر چھپا کرتے تھے ، اس نے خبریں ،نئی بات ،جہان پاکستان ، مشرق اور دیگر اخبارات میں بہت لکھا ۔ جہان پاکستان میں اب بھی لکھتی ہے ۔ ملیحہ ایک بڑے اور پرانے انگریزی اخبار کی سب ایڈیٹر بھی رہی اور ایڈیٹوریل صفحات دیکھتی تھی ۔اس نے کتب کے تراجم بھی کیے ، ادبی محفلوں میں غزلیں سناتی تھی ،مشاعروں میں شریک ہوتی تھی ۔پریس کلب کے الیکشن میں متحرک نظر آتی تھی ۔ اس نے اس دوران کئی بڑے صحافیوں اور بدمعاشوں سے پنگے لیے ۔
میڈیا انڈسٹری میں ڈاؤن فال آیا تو اس کا شکار ہونے والوں میں ملیحہ سید بھی شامل تھی ۔گھریلو معاملات اور میڈیا انڈسٹری کے ڈاون فال کی وجہ سے اس نے ملازمت چھوڑ دی ۔ سکہ بند بدمعاشوں سے پنگوں کی وجہ سے اسے اپنی فیملی سمیت اپنا علاقہ اور گھر چھوڑنا پڑا۔ اچھے وقت کے دوست برے وقت میں غائب ہو گئے ۔ میں نے اسے ان دنوں سرد راتوں میں تھانوں میں اپنے حق کی جنگ لڑتے ہوئے دیکھا ۔ عدالت اور کچہری میں اس نے اپنی جنگ تنہا لڑی ۔ اس وقت ان میں سے کوئی اس کے ساتھ نہیں تھا جن پر اسے مان تھا ۔ یہ عدالتی جنگ جیت گئی لیکن بدمعاش مافیا زیادہ خطرناک تھا ۔ اسے مجبورا فیملی سمیت اپنا گھر ، ملازمت اور علاقہ چھوڑنا پڑا
اس نے کورونا میں بے شمار لوگوں کی مدد کی اور مسلسل کئی گھروں کا کچن قائم رکھا لیکن جب اس کا چولہا بجھتا نظر آ رہا تھا تب واہ واہ کرنے والا ہجوم غائب تھا۔یہ وہ وقت تھا جب ملیحہ سید نے وہ فیصلہ کیا جو میں 5، 6 سال پہلے کر چکا تھا ۔ اس نے غیر ضروری فصلی بٹیروں سے جان چھڑا لی ، دوستوں اور محض جان پہچان والوں کے درمیان لائن کھینچ دی ۔اس نے اپنا وقت اپنے کام ، اپنی فیملی اور حقیقی دوستوں کے لیے مختص کر دیا ۔
اس کے بعد ملیحہ سید کا ایک نیا سفر شروع ہوا ۔یہ صحافی سے بزنس لیڈی بن گئی ۔اس کے پاس نہ سرمایہ تھا ، نہ سپورٹ اور نہ ہی وسائل لیکن اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس نے گاؤں دیہات سے صاف پانی پر کاشت کی گئیں تازہ سبزیاں خریدیں ، کوہلو سے خالص سرسو کا تیل نکلوایا اور آرگینگ فوڈ پر کام شروع کیا ۔اس کے پاس نہ کوئی دفتر تھا اور نہ ہی کارخانہ یا فیکٹری ۔ اس کا گھر ہی اس کا پروڈکشن ہاؤس تھا ۔اس نے گھر میں محدود پیمانے پر کیمیکل سے پاک اچار تیار کیا اور سوشل میڈیا پر مارکیٹنگ شروع کر دی ۔ اپنے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔
یہ کام چل نکلا تو اس نے باقاعدہ نام رجسٹر کروا کے اپنی کمپنی کا آغاز کیا ۔ پیکنگ مٹیریل تیار کروایا اور زیادہ سامان تیار کرنا شروع کر دیا ۔ اس کی کل لیبر اس کے گھر کے افراد تھے ۔ اس کے بھائیوں نے اسے سپورٹ کیا ۔ اس کے بعد ملیحہ نے کچھ زمینداروں سے ٹھیکہ کیا جو صاف پانی پر اپنی فصل کاشت کرتے ہیں ۔ سرسوں کی فصل سے تیل نکلوانے تک کا عمل اپنے سسٹم کے تحت پابند کیا اور دن رات کام کیا ۔
اس کی اچھی بات یہ ہے کہ تازہ سبزیوں اور پھلوں سے ایسی پروڈکشن تیار کرتی ہے جو ہماری دادیاں نانیاں گھروں میں خاندان کے لیے تیار کرتی تھیں ۔ اگر آم کا موسم نہیں تو آپ کو آم کا اچار نہیں مل سکتا ۔ آپ کو اس سے صرف موسمی پھل اور سبزیوں کا اچار ہی ملے گا کیونکہ یہ سٹاک اور فریز سامان نہیں لیتی۔ یہ صاف اور تازہ پھل و سبزیوں سے پراڈکٹ تیار کرتی ہے اسی لیے جلدی جگہ بنا رہی ہے ۔اس کی اصل مارکیٹ اس کے کسٹمر ہیں کیونکہ کیمیکل سے تیار اچار اور دیگر چیزیں کھانے والوں کو جب خالص اور صاف پھل و سبزیوں پر مشتمل خالص سرسوں میں تیار اچار ملتا ہے تو اس کی خوشبو اور ذائقہ انہیں اس کا مستقل خریدار بنا دیتا ہے۔ اب لوگ مختلف شہروں میں اس سے “ماں جی فوڈز” کی ڈیلر شپ لے رہے ہیں ۔ملیحہ سید اپنے کام کو مزید بڑھا رہی ہے اور اچار کے بعد خالص سرسوں کا تیل اور دیگر آرگینک فوڈز بھی مہیا کر رہی ہے ۔
مجھے ملیحہ نے بہت متاثر کیا ہے ۔ ملیحہ ارب پتی نہیں ہے لیکن اس نے جس طرح مشکل وقت گزارا اور اپنی صلاحیتوں سے اپنی کمپنی شروع کی وہ قابل تعریف ہے ۔ آپ کو آج کے دور میں کیمیکل سے پاک خالص گھریلو اچار ، تیل اور ڈرائی فروٹ درکار ہوں تو ماں جی فوڈز سے لے سکتے ہیں ۔انگریزی اخبار کی اس سب ایڈیٹر نے جس طرح صحافت میں اپنا معیار برقرار رکھا تھا اسی طرح بزنس میں بھی معیار قائم رکھا ہے (سید بدر سعید)