تحریر: سید بدر سعید
نوشین نقوی پہلی صحافی نہیں جن پر اس طرح میڈیا ہائوس کا دروازہ بند کیا گیا ہے ۔ اس لئے سوال کئے جا رہے ہیں کہ نوشین نقوی ہی کیوں ؟ ان سے پہلے جو لوگ نکالے گئے ان کے لئے آواز کیوں نہ اٹھائی گئی اور احتجاج کیوں نہیں کیا گیا۔ پہلی بات تو یہ کہ خود نوشین نقوی نکالے گئے ورکرز کے لئے آواز اٹھا رہی تھیں ۔اس حوالے سے ہمارے بہت تلخ تجربات ہیں ۔ میں پنجاب یونین آف جرنلسٹ کا جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوا تھا ۔ آج کل میرا چھوٹا بھائی اسعد نقوی پی یو جے کا منتخب عہدے دار ہے ۔ ہم نے مزاحمتی صحافت اور سیاست کو قریب سے دیکھا ہے ۔میں نے جنگ سمیت مختلف صحافتی اداروں کے باہر ورکرز کے لئے احتجاج میں بھرپور حصہ لیا ہے ۔ یونین میں آنے کے بعد مجھ پر انکشاف ہوا تھا کہ ہم جن کے لئے مالکان کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں وہی ساتھی ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے ۔ جن کو ملازمت سے نکالا جاتا ہے وہ اس ڈر سے نہیں آتے کہ عین ممکن ہے بحال ہو جائیں لیکن مالکان کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئے تو یہ امید بھی ختم ہو جائے گی ۔ جن کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے ہم احتجاج کرتے رہے وہ یہ سوچ کر احتجاج میں شامل نہیں ہوتے کہ کہیں ملازمت ہی نہ چلی جائے ۔ مجھے کبھی بھی ان سے گلہ نہیں رہا کیونکہ مجبوریوں کی ڈور میں بندھے ساتھی اپنی جگہ درست ہوتے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ ہم خبریں کے دفتر کے باہر تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے احتجاج کر رہے تھے ۔ ہمارا شور سن کر اور احتجاج کی اطلاع ملنے پر جو سینئر عہدے دار دفتر سے باہر آئے ان میں میرے سابق باس نعیم ثاقب بھی موجود تھے ۔ مجھے میرے کیرئر کے آغاز میں نعیم ثاقب کی بہت سپورٹ ملی ۔ چینل فائیو کا پہلا مزاحیہ پروگرام ہم نے ہی شروع کیا تھا ۔ نعیم ثاقب نے اس کی میزبانی کی ، وہ مجھ سے سکرپٹ لکھواتے تھے ، یہ میری اضافی اسائنمنٹ ہوتی تھی ۔ ان دنوں وہ پروگرامنگ ہیڈ بھی تھے ۔ اب صورت حال یہ تھی کہ وہ خبریں کے گیٹ پر کھڑے ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔ ہم ان کے سامنے کھڑے نعرے لگا رہے تھے ۔ ان کے کیمرہ مین ہماری ویڈیو بنا رہے تھے جو مالکان کو دکھائی جانی تھی کہ یہ گستاخ صحافی علم بغاوت بلند کرتے ہیں ۔ جب ویڈیو بن گئی تو نعیم ثاقب ہنستے ہوئے پنجابی میں کہنے لگے : یار اب بس کر دو ، آپ کی وجہ سے ہماری علاقے میں بڑی بے عزتی ہو گئی ہے ، اور کتنا ذلیل کرو گے ؟ ۔ احتجاج ختم ہوا تو کہنے لگے : شاہ آ جائو اندر ، چائے پیتے ہیں اور گپ لگاتے ہیں ، میں نے کہا : بھائی اس وقت آیا تو ادارے میں کام کرنے والے اپنے ہی دوست پھنس جائیں گے لہذا پھر کسی وقت بیٹھیں گے ۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہی بتانا تھا کہ جب ہم کسی ادارے کے ورکرز کے حق میں نکلتے ہیں تو ہمارے ساتھ اس ادارے کے ورکر بھی کھڑے نہیں ہوتے ۔
دوسری جانب نوشین نقوی نے اپنے لئے نہیں بلکہ ورکرز کے لئے اپنے ہی ادارے اور وہاں موجود صحافی راہنمائوں کے خلاف آواز بلند کی ہے کیونکہ ان کا ادارہ ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو نکال رہا ہے ۔ ان کا داخلہ اسی وجہ سے بند ہوا کہ وہ اپنے ہی ادارے کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں ۔ یہ ہمت ہمارے کئی صحافی راہنمائوں میں بھی نہیں ہے ۔ نوشین نقوی کا دوسرا اہم فیصلہ یہ تھا کہ جب ساتھیوں کے لئے آواز بلند کرنے پر ان کا داخلہ اے آر وائی میں بند کیا گیا تو انہوں نے باقی لوگوں کی طرح گھر جانے کی بجائے اکیلی ہی ادارے کے سامنے دھرنہ دے دیا ۔ یہ دونوں فیصلے انہیں ان سے پہلے والوں سے ممتاز کرتے ہیں ۔ پہلے جن لوگوں کو نکالا جا رہا تھا انہیں چپ رہنے کی سزا ملی تھی جبکہ نوشین نقوی دوسروں کے لئے آواز بلند کرنے کی مجرم بنی ۔ دوسری بات یہ ہو گئی کہ انہوں نے فوری طور دھرنہ دے کر جابرانہ فیصلے کے سامنے اڑ جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ وہ بغاوت کا استعارہ بن گئیں اور یہی چیز ورکر صحافیوں کو ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنے لگی ہے ۔۔۔۔ جب آپ ہمت دکھاتے ہیں تو صورت حال بدل جاتی ہے ۔ نوشین نقوی ون وومن آرمی بنی تو ان کی فورس بھی اکٹھی ہونے لگی ۔ ہم خاموش رہنے اور لڑ جانے والوں کو ایک صف میں نہیں کھڑا کر سکتے ۔ امید ہے کہ بیداری اور ہمت کا یہ سلسلہ آگے چلے گا اور سبھی اداروں کے ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پرایکشن لیا جائے گا
(سید بدر سعید ، سابق جوائنٹ سیکرٹری پنجاب یونین آف جرنلسٹس )