تحریر: انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی۔۔
میرے بزرگ جد وی کوئی انہونی ویکھدے سن تے مثال دیندے سن” جولایا دا مر گیا بابا تے اوناں منہ تے دیسی مکھن مل دیتا تے سوگ کرن والیاں نوں دسن بابا تے مکھن کھندا مریا اے جد کے او بابا بکھ نال مریا سی.” صدف نعیم ایک محنتی، خوش مزاج اور پروفیشنل صحافی تھی. میرا اگرچے اس کے ساتھ کوئی براہ راست تعارف نہ تھا لیکن جب کبھی پنجاب اسمبلی سیشن کی کوریج کے لیے جانا ہوتا تو ایک خاتون کو بھاگتے دوڑتے دیکھتا کہ وہ کس جانفشانی اور محنت سے ارکان اسمبلی، صوبائی وزراء سے اپنے ٹی وی چینل کے لیے ساٹ لینے کی کوشش کرتی. اکثر ای کٹ ہاتھ میں تھامے دھوپ و چھاوں کی پروا کیے اپنے فرائض اس تندہی اور محنت سے ادا کرتی کہ محسوس ہوتا کہ شاید ادارے کے لیے ساری خبریں اکٹھا کرنا صدف کی ذمہ داری ہے. صدف نے کبھی اپنے آپ کو خاتون ہونے کا فائدہ نہ لیا بلکہ میڈیا ٹاک میں اپنے کولیگز کے ہمارے ہر جگہ نمایاں پائی جاتی. دوستوں کے مطابق صدف کے پاس اپنی سواری بھی نہ تھی اور نہ جس ادارے میں کام کرتی تھی نے سواری فراہم کی ہوئی تھی. وہ بیچاری پبلک ٹرانسپورٹ پر سب کچھ مینج کرتی. پی ٹی آئی کے لونگ مارچ پر ڈیوٹی لگا دی گئی لیکن نہ ادارے نے ٹرانسپورٹ فراہم کی نہ مارچ کی انتظامیہ نے ایسے صحافیوں کے لیے کوئی باعزت سفری انتظام کیا. اگرچے صدف اپنے ادارے کے لے عمران خاں کا ایک سولو ساٹ کرچکی تھی لیکن دوسرے ساٹ کے لیے کوشش کرتے کرتے شہادت کے عہدے پر فائز ہوگئی. میڈیا رپورٹس کے مطابق صدف جس ادارے کے ساتھ وابسط تھی اس نے ایسے پچھلے چھ ماہ سے سیلری نی دی تھی اور اس کا خاوند بھی آج کل بے روزگار تھا. صدف دو بچوں کی ماں تھی اور نہ جانے کیسے گزر بسر کرتی تھی. چھوٹا سا خستہ حالت گھر اور بچوں کے لیے راشن بھی قلیل تھا. ناجانے صدف کس کسمپرسی اور تنگدستی سے گزر بسر کرتی تھی لیکن اس قدر بہادر تھی کہ اپنے پروفیشنل کام پر کمپرومائز نہ کرتی تھی. بھاگ دوڑ اور محنت سے اپنے بچوں کے لیے حلال نوالے کمانے میں عزت سمجھتی تھی. بھوک و افلاس کے خلاف ہر وقت برسر پیکار رہتی تھی. وہ اس کسمپرسی اور ادارے کے جبر و ناانصافی کی وجہ سے سخت جان ہوچکی تھی. اب اس کی شہادت کے بعد وفاقی حکومت نے 50 لاکھ اور صوبائی حکومت نے 50 لاکھ لواحقین کو امداد دینے کا اعلان کیا ہے. اب سوال یہ ہے کہ وہ کرب اور جبر جو صدف نے اپنی زندگی میں برداشت کیا یہ رقم اس کا مداوا کر دے گی.محنت و کام کرنے کے باوجود اسے جو تنخواہ نہ دی جاتی تھی کا کبھی اربابِ اختیار نے نوٹس لیا. مالی مشکلات کی وجہ سے صدف کسمپرسی اور تنگدستی کی آگ میں جو جلتی رہیی اس وقت کیا کسی غیرت مند حکمران اور صحافی تنظیم نے اس کی مدد کر کے حق دلوایا. دوستوں نے مزید بتایا کہ پریس کلب کی طرف سے صحافیوں کی جو انشورنس کروائی گئی ہے اس پر کلب انتظامیہ نے پریمیئر بھی جمع نہیں کرایا جس کی وجہ سے انشورنس کی رقم بھی ملنے کے امکانات مخدوش ہیں. کیا ارباب اختیار کو نہیں پتہ کہ چند میڈیا ہاوس اپنے ورکرز کو تنخواہیں نہیں دیتے جبکہ حکومت ان کو ماہانہ کروڑوں کے سرکاری اشتہارات دیتی ہے. میڈیا مالکان شاہان زندگی بسر کرتے ہیں اور ورکرز دو نولے روٹی کو ترستے ہیں. حکومت کب تک آنکھیں بند کرکے اس استحصال کا تماشہ دیکھتی رہے گی. کب تک صحافتی تنظیمیں اور ان کے عہدے دار اپنے مفادات کی وجہ سے عام ورکر صحافی کے استحصال پر خاموش تماشائی بن کر تماشا دیکھتے رہیں گے. دو چار دن بعد یہ مفاد پرست جغادری مفادات کی بین بجا کر اپنی دھاڑی لگا کر صدف جسے غریب صحافی کا خون بیچ کر دوبارہ موج مستی میں مشغول ہو جائیں گے. یہ صحافی تنظیمیں چند دنوں بعد جولانیوں والا فقرہ کہیں گی کہ صدف جب مری تو اس کے منہ پر مکھن لگا ہوا تھا. ان تنظیموں کی غیرت اور ضمیر کب جاگ کر میڈیا مالکان سے ورکرز کا حق لے کر دے گا یا مزید اموات پر بھنگڑا ڈالے گا یہ وقت ہی راہنمائی کرے گا. کب تک یہ گدھ صحافیوں کی بوٹیاں نوچتے رہیں گے۔دوچار دن کی تعزیت صدف کی موت کا مداوا نی کرسکتی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا ایجنڈا پورا کرسکتی ہے۔(انورحسین سمرا،تحقیقاتی صحافی)۔۔