تحریر : صائمہ اکرم چوہدری
دنیا میں کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو فوری ردعمل میں عوام بظاہر مظلوم نظر آنے والے کا ہی ساتھ دیتی ہے، جیسے جیسے وقت گذرتا ہے ، واقعے پر جذباتیت کی دھول چھٹنا شروع ہوتی ہے اور حقائق نظر آنے لگتے ہیں تو پھر علم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کن وجوہات کی بنا پر پیش آیا اور اصل حقائق کیا تھے ۔۔۔۔
معذرت کہ ساتھ بحثیت مجموعی ہم ایک شدت پسند قوم ہیں ، نور مقدم ہو یا موٹر وے پر اپنے بچوں کے ساتھ جانے والی اکیلی عورت ،یا پھر قبر میں لیٹی ہوئی مردہ عورت کے جسم کی بے حرمتی ۔۔۔۔۔ہم ان سب چیزوں کو ایک ہی تنا ظر میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔
یو ٹیوب پر اکثر ہالی وڈ یا بالی وڈ سیلبرٹیز کی ائیر پورٹ پر ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں جہاں انکے فینز ہجوم کی شکل میں ہوتے ہیں اور اپنے پسندیدہ ستاروں کو اپنے سامنے پا کر بے قابو ہو جاتے ہیں اور ہر کوئی ان ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتا ہے، حالانکہ ان سیلبرٹیز کے ساتھ اچھی خاصی سیکورٹی ہوتی ہے ،اس کے باوجود ان کے ساتھ ناخوشگوار واقعات ہوجاتے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے کہ ہجوم کی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے اور بہت سی دبی ہوئی ناآسودہ خواہشات ہم اس ہجوم میں اس لیے کر گذرتے ہیں کہ یہاں ہمارا انفرادی فعل ، اجتماعیت کے پردے میں چھپ جائے گا۔اس لیے جب کوئی سوشل میڈیا پر واقعہ ہوتا ہے تو اس واقعے کی آڑ میں ہم سب اپنی اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں ۔
جہاں تک بات ہمارے معاشرے کی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہاں عورت محفوظ نہیں یا مرداکثر صورتوں میں درندگی پر اتر آتا ہے ۔ نوے فیصد کیسز میں ہم مردوں کو ہی بُرا بھلا کہہ کر ہاتھ جھاڑ کر ایک سائیڈ پر ہو جاتے ہیں حالانکہ زیادتی کو صنفی پیمانے میں نہیں پرکھنا چاہیے ،وہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے ، چاہے مرد ہو یا عورت ۔۔۔۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم مردوں کی تربیت پر تو بہت سوال اٹھاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان مردوں کی تربیت کی ذمہ دار ہم عورتیں ہی ہیں ،قبر میں لیٹی مردہ عورت کی بے حرمتی کرنے والے درندوں کو ہم نے ہی جنا ہوتا ہے ،موٹر وے پر لٹنے والی عورت کے مجرموں کو ہم عورتوں نے ہی اپنا دودھ پلا کر پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے ۔ ایسے میں سوال مرد کی تربیت پر نہیں ، ہم عورتوں پر بھی بنتا ہے کہ اگر تربیت نہیں کر سکتی ہو تو پیدا ہی کیوں کرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟یا فرض کریں آپ میں سے کتنی مائیں اپنے بیٹوں سے کہتی ہیں کہ جاو آج کسی کی بہن کی عزت تار تار کرکے کسی چوک پر لٹکا آو، یا آپ میں سے کوئی بہن اپنے بھائی سے کہتی ہے کہ جاواپنی مردانگی کا اظہار کر کے دنیا کو دیکھا دو کہ کتنے بڑے سورما ہو ۔۔
تو ایسا بالکل نہیں ہے ۔۔۔ہر انسان بالغ ہونے کے بعد اپنا اچھا بُرا جانتا ہے اور اپنے انفرادی فعل کا خود ذمے دار ہے ۔ ایسی صورت میں ہر بات تربیت پر نہیں لانی چاہیے ، کیونکہ بُری سی بُری ماں بھی نہیں چاہے گی کہ اسکا بیٹا بُرا انسان بنے ۔ایک اور تنا ظر سے دیکھا جائے تو انسانی نفسیات اتنی پیچیدہ ہے کہ ایک ہی گھر میں ایک ہی ماں کے ہاتھوں پلے ہوئے بچے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی اچھائی کی راہ اختیار کرلیتا ہے تو کسی کو بُرائ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ، اس میں ہر بار قصور تربیت کا نہیں ہوتا، کچھ چیزیں اسے فطرتا ملتی ہیں جو اردگرد کے ماحول میں کبھی پروان چڑھ جاتی ہیں تو کبھی دب جاتی ہیں
یاد رکھیے گا ،تالی ایک ہاتھ سے نہیں بچتی ،ہاں کچھ صورتوں میں یہ تالی بجانے والے ہاتھ ایک ہی انسان کے بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ بہت کم کیسز میں ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری عورت کے لباس پر بات نہ کی جائے ، وہ اگر عریاں ہو کر بھی گھر سے نکلے تو مردوں کو اپنی نظریں جھکالینی چاہیے ، سب کچھ مردوں کو ہی کرنا چاہیے ہماری عورت کو اپنی زندگی گذارنے کا مکمل حق ہونا چاہیے کیونکہ وہ ایک آزاد معاشرتے کی ایک آزاد عورت ہے،وہ جہاں چاہے کچھ بھی کر سکتی ہے ، ناچ سکتی ہے ، گا سکتی ، سب کے سامنے سوئمنگ کر سکتی ہے ، اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو یقینا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ایسا مثالی معاشرہ آپ کو ڈھائی گھنٹے کی کسی فلم یا کتاب میں تو مل سکتا ہے ، حقیقت میں اسکا وجود ناپید ہے یا کم ازکم پاکستان میں اگلے پچاس سالوں میں بھی ایسا ممکن نہیں،کیونکہ عورت اور مرد کے درمیان فطری کشش یا جنس جیسے پیچیدہ موضوعات پربات کروں گی تو بحث کا رخ کسی اور جانب مڑ جائے گا۔
یاد رکھیے ، برائِ اور اچھائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ انسانوں کا معاشرہ ہے فرشتوں کا نہیں ،یہاں انسانوں کو ایک دوسرے کے شر سے بچانے کے لیے قوانیں بنائے گئے ہیں اور مہذب ممالک میں جہاں سخت قوانیں ہیں، جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں اور ریپ کا ریشو وہاں بھی کم نہیں ، لیکن وہاں اچھی بات یہ ہے کہ جرم پر سزائیں دی جاتی ہیں اور لوگوں میں قانوں کا خوف موجود ہے،ہمارے ہاں تو مجرم دھڑلے سے وکٹری کا نشان بنا کر جیلوں سے نکلتے ہیں ، سیلفی بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ قانون انکے پیسے کی چکا چوند اور اختیارات کے آگے کچھ بھی نہیں ۔ وہ اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔
جہاں تک بات عائشہ بیگ کے واقعے کی ہے اس کی پہلی خبر جب سامنے آئی تو بحثیت ایک خاتون اسکا درد اپنے دل پر محسوس کیا، چار سو مردوں کو بُرا بھلا کہنے کے لیے چار پوسٹیں تو لگا ہی دیں ، لیکن ہم ایسی پوسٹس لگاتے ہوئے جب سارے مردوں کو ایک ہی کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں تو پھر مردوں کو بھی اتنی ہی آزادی رائے کا حق دیں کہ وہ کسی ٹک ٹوکر کے لباس، یا اسکی پرانی ویڈیوز کا حوالہ دے کر اپنے اس عمل کو جسٹی فائی کر سکیں، بے شک یہ بہتر طرز عمل نہیں ۔
یاد رکھیے ، ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے ۔ ہر برائی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے لیکن اس “وجہ” کے ہونے کے باجود انسان کو یہ پرمٹ نہیں مل جاتا کہ وہ دوسرے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دے ۔۔۔۔ عائشہ بیگ کون تھی ۔۔۔۔؟کیسی ٹک ٹوکر تھی ۔۔۔؟اس واقعے میں اس کی ٹیم کے چار پانچ مرد بھی اسکے ساتھ تھے ، جو بے ہنگم ہجوم کو اپنی ساتھی سے دور رکھنے کے لیے یقینا ہاتھ پیر مار رہے ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔یہ سارے سوالات آپ کے ذہن میں بھی بیدار ہوئے ہوبگے ۔۔۔۔۔
جب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ، کہ ظاہر بیگ نے درندگی کے ساتھ نور مقدم کا قتل کر دیا تو وہیں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ دو سال اس سے جسمانی تشدد کروانے کے بعد بھی اسکے ساتھ ریلیشن شپ میں کیوں تھی ۔؟اور ماں باپ سے لاہور جانے کا جھوٹ کیوں بولا ۔۔۔۔؟ یا ماں باپ نے بیٹیوں کو اتنی آزادی کیوں دے رکھی تھی ۔۔۔۔؟یقینا یہ ساری باتیں کسی قاتل کو، یہ جواز فراہم نہیں کرتیں کہ کسی کا بے رحمانہ انداز سے قتل کر دے اور یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ،لیکن جب ہم آزاد معاشرتے میں رہتے ہیں تو پھر سوال تو اٹھیں گے ہی ۔۔۔۔
میں نے عائشہ بیگ کی ٹک ٹاک پر ویڈیوز دیکھیں اور معذرت کہ ساتھ ان میں جتنی بے ہودگی تھی وہ یقینا اسکا ذاتی فعل ہے اور مجھے اس پر بات کرنے کا کوئِ حق نہیں ،لیکن اس واقعے کے اگلے دن بھی اسکا نارمل انداز میں ویڈیوز اپ لوڈ کرنا میرے لیے شاید اتنا حیران کن نہیں ہوگا ،میرے نذدیک، ہو سکتا ہے وہ ایک مضبوط اعصاب کی حامل لڑکی ہو، جس کو چار سو مردوں نے نوچا ، اچھا لا اور اللہ کے حکم سے اس کے جسم پر کوئی خراش تک نہیں آئی لیکن یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں کہ اس واقعے کے اگلے دن بھی وہ نارمل ویڈیوز کیسے اپ لوڈ کرتی رہی ،اور اسے سترہ اگست کو ہی رونا پیٹنا کیوں یاد آیا ۔۔؟
ہوا یہ تھا کہ اس نے ایکدن پہلے اپنے فینز کو مینار پاکستان پر میٹ اپ کے لیے بلایا اور کہا کہ وہاں پارٹی ہوگی،میرے ساتھ تصویریں اور ویڈیوز بنیں گی، اس لیے آپ میں سے جو جو مجھ سے ملنا چاہے وہ مینار پاکستان پہنچ جائے ۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ٹک ٹوکرز کے ایسے فینز کی نفسیات سے کون واقف نہیں ہوگا ۔ ان کے نذدیک تو وہ ایک بہت بڑی سیلبریٹی تھی جس کے ساتھ تصویر یا ویڈیو پر ان کے کتنے لائِک ملتے یا ان کی ویڈیوز پر کتنے فالورز بڑھ جاتے ۔۔۔۔۔۔ بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سے لوگ ان لائیکس اور فالورز کے چکر میں خود بھی ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنانے سے گریز نہیں کرتے ، کبھی کوئی ٹک ٹوکر اپنے شوہر کو مار کر اگلے دن زندہ کر دیتی ہے اور کبھی کوئِ خود کشی کرنے کے اعلانات کرکے لوگوں کو اپنی طرف اکھٹا کر لیتا ہے ۔ ہم سب تماش بین ہیں، اور کسی مداری کی طرح ڈگڈِی بجا کر بس لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں چاہے اس کی ہمیں کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے ،
عائشہ بیگ نے بھی چودہ اگست کو اپنے فینز کو دعوت دے کر کسی سیلبریٹی کی طرح انٹری دی ،فینز کی طرف فلائنگ کس اچھالیں ،ہاتھ ہلائے۔۔۔ اور وہ فینز نہیں صرف ایک بے ہنگم ہجوم تھا، جو اس لڑکی کے ساتھ تصویریں اور ویڈیوز بنانے کے چکر میں آپے سے باہر ہو گیا اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ایسے بے ہنگم مجمع میں ہوتا ہے ،کسی کی جیب کٹ جاتی ہے تو کسی کا لباس ادھڑ جاتا ہے، کسی کے چوٹ لگتی ہے تو کسی کا سیل فون نکل جاتا ہے اور بہت سے لوگوں کے اندر کا شیطان جاگ اٹھتا ہے پھر بچانے والے اور لوٹنے والے سب برابر ہو جاتے ہیں ۔ ایسے عالم میں چار سو مردوں میں ہمیں وہ چالیس بچانے والے بھی یاد نہیں رہتے اور ہم سارے مردوں کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کر کے لعن طعن کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں ۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہجوم تو کبھی معمولی چوری کرنے والے چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر ان کو جان سے مار دیتا ہے تو کبھی پوری پوری بستیاں جلا دیتا ہے، ایسے عالم میں عافیت یہی ہوتی ہے کہ خود کو اس ہجوم کاحصہ بننے نہ دیا جائے کیونکہ ہجوم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،کوئی دین ایمان نہیں ہوتا، صرف ان کے اندر شدت پسندی اور وحشت کا غلبہ ہوتا ہے۔
معذرت کہ ساتھ میں یہاں اپنا حوالہ دوں گی اور اسکا ہر گز ہرگز یہ مقصد نہیں کہ اگر میرے ساتھ کچھ بُرا نہیں ہوا تو دنیا کی کسی عورت کے ساتھ بُرا نہیں ہوگا ،میں ڈھائی سال ٹرین میں چھے گھنٹے کا سفر، دن رات کر کےصادق آباد سے ملتان یونیورسٹی بالکل اکیلے جاتی تھی ، اس وقت سیل فون نئے نئے آئے تھے اور ہمیں ہوسٹل میں رکھنے کی اجازت نہیں تھی ، صرف اکا دکا لوگوں کے پاس یونیورسٹی میں نوکیا تینتس دس ہوتا تھا ،لونگ ویک اینڈ پر میں اپنی روم میٹس کے ساتھ وہاڑی، بہاولنگر، اور ڈی جی خان بھی اکیلے لوکل ٹرانسپورٹ پر ہی جاتی رہی ، لاہور،فیصل آباد کے ان گنت سفر اکیلے کیے لیکن شاید وہ دور اچھا تھا یا پھر اس وقت لوگوں نے اپنے اندر کی درندگی کو چھپا رکھا تھا ، الحمد اللہ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ، اور ہماری مائیں شاید بہت سخت تھیں، یا ان کو بچوں کی تربیت کرنا نہیں آتی تھی،خدا گواہ ہے بچپن میں اگر باہر کھیلتے ہوئے کسی بچے کے ہاتھوں مار کھائی تو گھر آکر بھی اللہ کے حکم سے ماوں کی جوتیاں ہی کھائَیں کہ تم وہاں کرنے کیا گئی تھیں ، اس کے بعد ہمیشہ کے لیے یہ ڈر بیٹھ گیا کہ چاہے قصور ہو یا نہ ہو لیکن ڈانٹ ضرور پڑے گی اس لیے ایسے معاملات سے خود ہی دور رہا جائے اور ایک محتاط روئیہ اپنایا جائے ۔
بدقسمتی سے َیہ جو ٹک ٹاک پر پروان چڑھنے والی ہماری نسل ہے ،وہ حدود و قیود سے بالکل آزاد ہے ، ان کے لیے کوئی سنسر شپ نہیں ، انکے ہر عمل کو ہم کب تک انکا ذاتی فعل قرار دیتے رہیں گے جب ایک مدر پدر آزاد معاشرہ وجود میں آئے گا تو وہاں ایسے واقعات کا ریشو بڑھتا ہی چلا جائے گا اورآپ لوگ دیکھ لیں، دن بہ دن اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔معذرت کہ ساتھ یا تو ان ٹاکرز کی ویڈیوز انکے گھر والے نہیں دیکھتے یا اگر دیکھتے ہیں تو ان کے لیے یہ قطعا معیوب بات نہیں تو پھر انہیں اپنی بچی کے ساتھ پیش آنے والا ایسا واقعہ بھی زیادہ سنگین نہیں لگنا چاہیے۔
میں اس بات پر بھی حیران ہوتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ لباس کسی انسان کا ذاتی فعل ہوتا ہے تو میں اس سے متفق نہیں ، ایسے گھٹے ہوئے معاشرے میں جہاں نیٹ فلیکس پر سیکس سے متعلق چیزوں میں پاکستان نمبر ون ٹرینڈنگ میں ہوتا ہے، وہاں ہم سب کو محتاط رویوں کی ضرورت ہے ، آپ اپنی بہن اور بیٹیوں کے لباس کو انکا ذاتی فعل کہہ کر معاشرے کے کسی گدھ کے سامنے لائِیں گے تو پھر اس گدھ کی بدسلوکی بھی اسکا ذاتی فعل ہی شمار ہوگی،میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ بحثیت مسلمان عورت میری کچھ حدود و قیود ہیں اور میں جب اس دائرے سے باہر نکلوں گی تو میرے ساتھ یقینا کچھ نہ کچھ بُرا ضرور ہوگا۔بے شک میں اس بات کو بھی مانتی ہوں کہ میرا لباس کسی دوسرے انسان کو کسی بھی حوالے سے میرے ساتھ کچھ غلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا،لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ ایسے بے حس درندہ صفت لوگ ،ایسے قوانین کو نہیں مانتے ، اس لیے مجھے اپنا بچاو خود کرنا ہے ۔
اسی طرح جب کوئی مرد، کسی ہجوم میں یا کسی قبر میں لیٹی مردہ عورت پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہمارا معاشرہ ایسے درندوں کو سرعام چوک پر پھانسی کے پھندے پر لٹکائے تو یقین مانیں ،بہت سے لوگ اپنے اندر کے درندوں کو خود ہی سلا دیں گے ، برائِ اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب معاشرے میں قانون کی بالا دستی نہیں ہوتی ، جب تک ہم ان لوگوں کو بچاتے رہیں گے اور کسی کو ٹیسٹ کیس بنا کر عبرت کا نشان نہیں بنائیں گے تب تک ہمیں ایسے واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔
اور آخری بات یہ کہ ایک طرف آپ سخت سزاوں کو وحشیانہ عمل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف کسی حادثے کی صورت میں ساری دنیا کے مردوں یا عورتوں کو دشمن قرار دے دیتے ہیں یہ کوئی مناسب طرز عمل نہیں ، نہ تو ہر مرد خراب ہوتا ہے اور نہ ہی ہر عورت ہر واقعے میں مظلوم ہوتی ہے ، اور نہ ہی کوئی چیز یا جواز آپ کو کسی پر ظلم کرنے کا پرمٹ دیتا ہے ،ضرورت اپنے روئِیوں میں تبدیلی لانے اور اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کی ایپس کا درست استعمال بتانے کی ہے۔۔ضرورت دوسروں کی تربیت پر سوال اٹھانے کی نہیں اپنے آنگن میں پلنے والے بچوں کو درست اور غلط چیزوں میں فرق بتانے کی ہے، چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا۔۔۔۔۔کیونکہ، عورت کا لباس کیسا بھی ہو،جواب مرد کو اپنی آنکھوں کا ہی دینا ہے ، اور مرد کی نظریں کیسی بھی ہوں ، بحثیت مسلمان ، عورت کو اپنے سارے اعمال کا جواب اپنے اللہ کے سامنے خود ہی دینا ہے ، اگر آپ دنیا کے کسی مذہب یا کسی اخلاقی قانون کو مانتے ہیں۔
اور یاد رکھیے گا کہ جب چیزیں اپنی حدود سے نکلتی ہیں تو زیادہ تر صورتوں میں انکا انجام برا ہی نہیں بعض دفعہ بھیانک بھِی ہو سکتا ہے۔۔
باقی یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے ، آپکا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ اس لیے کمنٹس کرتے ہوئے تہذیب کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑئیے گا۔۔(صائمہ اکرم چودھری)۔۔