تحریر: عاصمہ شیرازی
یہ 2003 کی بات ہے جب مشرف حکومت کے دور میں بجٹ پیش کیا جا رہا تھا۔ میں آزاد میڈیا کے ایک نجی ٹی وی سے وابستہ ہو چکی تھی۔ بجٹ ٹرانسمیشن کے دوران مہمان تشریف لا رہے تھے اور ہم بطور صحافی انھیں لائیو ٹرانسمیشن کے لیے رابطے کر رہے تھے۔ اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ عمران خان صاحب جو اس وقت ایک ایم این اے تھے چوتھے فلور پر موجود ہیں۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ فوری سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے ہم چند صحافی وہاں جا پہنچے۔
خان صاحب اکیلے تشریف فرما تھے، گفتگو کا آغاز ہوا اور ہم نے سوال داغا ’خان صاحب آپ نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو سیاست میں ان کے لیے باعث کشش ہو کیونکہ وہ روایتی سیاست اور سیاست دانوں سے اکتا چکے ہیں، آپ کیسے انھیں متوجہ کریں گے؟ عمران خان نے مسکرا کر کہا کہ میرا نشانہ بھی آج کا ووٹر نہیں ہے۔ میں نے نوجوانوں کے لیے پروگرام شروع کر دیا ہے۔ کالجوں، یونیورسٹی تک میں طالب علموں تک رسائی حاصل کر رہا ہوں۔ میرا ٹارگٹ آج کا بچہ ہے جو کل کا ووٹر بنے گا۔ یاد رہے کہ مجھ سمیت میرے ہم عمر 1992 کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کو اپنا ہیرو مانتے تھے اور ہیں۔خان صاحب نے ایک بار پھر اپنے مخصوص انداز میں خلا میں دیکھا اور کہا کہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ میرا ووٹر نابالغ ہے، بالکل ہے مگر میں اس نابالغ کو سیاسی بالغ بناؤں گا۔۔۔ وہ وقت بھی آیا جب عمران خان پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے طالب علموں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بھی بنے اور یہی وہ وقت تھا جب کپتان نے اپنا غصہ نوجوانوں میں اُتارنا شروع کیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان سیاست کے میدان میں چھاتہ بردار نہیں۔ ایک نشست سے لے کر آج قومی اسمبلی میں 158 نشستوں تک کے سفر میں نشیب ہی نشیب تھے۔ انھوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو انھیں ایوان اقتدار تک لے آئے۔ ہر وہ شخص جو انھیں ناکام سیاست دان کہتا تھا آج اُن کے پہلو میں ہے بھلے وہ چوہدری شجاعت ہوں یا پھر شیخ رشید، تانگہ پارٹی کہنے والے کپتان کہتے نہیں تھکتے۔ گیٹ نمبر چار کی حمایت کا الزام لگے یا پنڈی بوائے ہونے کا داغ، کپتان نے وکٹ سنبھال لی ہے۔ اوئے توئے کی آوازیں پیچھا کریں یا پارلیمنٹ پر لعن طعن کرنے کا عمل، عمران خان سب سے بڑی جماعت کا سربراہ اور قائد ایوان بن گئے ہیں۔ ڈرائنگ رومز میں بیٹھی محض نظام کو کوستی اشرافیہ اور نظام سے اکتائے ہوئے نوجوان قطاروں میں لگ کر ووٹ ڈال چکے ہیں، نئے پاکستان کے خواب بُنے جا رہے ہیں، سیاست دانوں کو گالی کا نشانہ بنانے والے محض خان کی وجہ سے جمہوریت پہ ایمان لے آئے ہیں اور ہاں کراچی اور فاٹا میں واقعی نوجوانوں نے کپتان کو ووٹ دیے ہیں۔۔ایک کروڑ 68 لاکھ سے زائد ووٹوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے انتخاب کے مقابلے میں دو کروڑ نیا ووٹر اس انتخاب کا حصہ بنا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ عمران خان پارلیمانی جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ بنا رہے ہیں۔۔۔
مگر ایک بہت بڑا لیکن۔۔۔ کہ اب کپتان کو اس ٹیم کی رہنمائی کرنا ہے جو گالم گلوچ پر یقین رکھتی ہے۔اُس غصے کو طاقت میں تبدیل کرنا ہے جو موبائل فون ہاتھ میں لیے انصاف کی تلاش میں اپنی نگاہ میں چوروں کا پیچھا کرنے چلی ہے۔ جو گلیوں اور بازاروں میں ملزموں کو مجرم بنا کر پیش کر رہی ہے اور فیصلے سر عام کرنے کی سعی میں ہے۔خان صاحب آپ کے لیے معیشت ٹھیک کرنا شاید بڑا مسئلہ نہ ہو، آپ نظام بھی پٹڑی پر لا سکتے ہیں لیکن اس نئے پاکستان کے نئے ووٹر کو جو آپ کی طاقت ہے ایک اچھا اور کارآمد شہری کیسے بنائیں گے، یہ نئے پاکستان میں آپ کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔( بی بی سی )۔۔