Rizwan Abdul Rehman Abdullah

خان صاحب  ایک یوٹرن اور لے لیں۔۔۔۔

تحریر: ۔رضوان عبدالرحمان عبداللہ

آخر اللہ اللہ کر کے مرکزی حکومت نے اس لاک ڈاون کی مدت میں دو ہفتے کی مزید توسیع کر دی ہے جسے نا کرنے کے مثبت پہلوں پر خان صاحب کی طرف سے بے شمار بار روشنی ڈالی چکی تھی۔ پہلے خطاب میں جب خان صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ٰ’’لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتیں گے‘‘تو مجھ جیسے بے شمار لونڈے لپاڑے جن کی ’’تبدیلی آئے رے‘‘ پر لاشعوری ٹھمکے نکل جاتے ہیں کو نا صرف خان صاحب کے سپورٹس مین اسپرٹ پر گرو ہوا بلکہ ایسے مظبوط اعصاب والے حکمران کے چہرے پر اطمنیان کی کیفیت دیکھ کر فرط جزبات سے آنسو نکل آئے۔ لیکن جب جزبات ٹھنڈے پڑنے پر خود سے یہ سوال کیا کہ بھلا گھبرانا کیوں نہیں ہے؟ کیونکہ نا تو ہمارا ملک کا نظام صحت اس موزی مرض کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نا ہی ہمارا معاشی نظام اس کے سائیڈ افیکٹس سہنے کا محتمل ہو سکتا ہے۔۔۔ تو نا چاہتے ہوئے چند لمحوں کے لئے گھبراہٹ کا احساس ضرور طاری ہویا۔ لیکن بھر سر جھٹک کر ایسے شکوک و شبہات کو شیطان کا حملہ گردانتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس یقین سے  دو دفعہ آل از ویل پڑھا کہ خان صاحب کے پاس ضرور اس وائرس کا توڑ ہے، تبھی تو وہ اتنے پرسکون اور پریقین ہیں۔

دوسری طرف آئے روز دیگر ممالک میں موزی مرض سے بچاو کے لئے لاک ڈاؤن کا نفاز کی خیریں آنا شروع ہو گئیں۔ دل میں پھر شکوک وشبہات اٹھنے لگے کہ خان صاحب کہیں دیر تو نہیں کر رہے! شاید ایسے شکوک وشبہات کی بھنک خان صاحب کو بھی پڑ گئی اور خان صاحب ایک دفعہ پھر قوم کے سامنے براجمان ہوئے اور مطلع کیا کہ ’’اگر ہمارے حالات اٹلی اور چین جیسے ہوتے تو پورے ملک میں لاک ڈاؤن کردیتا فی الحال ایسا ضروری نہیں‘‘۔ اس خطاب نے شکوک و شبہات کو تو رفع کردیا لیکن خان صاحب کے جواب نے ذہنوں میں ایک اور سوال کا جنم دیا کہ جانے کیوں خان صاحب ملک کو اٹلی اور چین بنانے پر تلے ہیں؟

اب کی بار کے اٹھنے والے شکوک و شبہات اندیشوں میں تبدیل ہونا شروع ہی ہو رہے تھے کہ اگلے دن صوبائی حکومتوں نے اپنے صوبوں میں لاک ڈاؤن نافز کرنے کا اعلان کردیا۔ اب حالات کی سنگینی کا ادراک نا صرف ہم ’’جب آئے گا عمران‘‘ پر جھومر ڈالنے والوں کو ہو چکا تھا بلکہ عمران کو لانے والوں کو بھی خبردار کر چکا تھا۔

پر جانے کیوں خان صاحب ابھی بھی حالات کی نزاکت سے ناواقفیت کا  تاثر دینے پر کامیاب ہو رہے تھے۔ صحافیوں سے ملاقاتوں میں خان صاحب کا لہجہ ابھی بھی کسی قسم کی پریشانی اور ٹھوس حکمت عملی سے عاری تھا۔ لیکن قوم کی گھبراہٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ گھبرائی ہوئی قوم جو خان صاجب کے تیسرے خطاب سے اپنے ہینڈسم وزیراعظم سے کورونا وائرس کے تدارک کے لئے کوئی انقلابی قدم اٹھانے کی توقع ’’نہیں‘‘ بھی کر رہے تھے، تقریر سننے کہ بعد بلاشبہ ان لوگوں کے اوسان خطا ہونا شروع ہو چکے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ خان صاحب کو معلوم ہی نہیں کہ انہوں نے  بازی پلٹنے کے لئے جو دو پتے پھینکے ہیں وہ دراصل تاش کی گڈی کے وہ دو ٖغیر ضروری پتے ثابت ہوئے ہیں جن کو جوکر کہا جاتا ہے۔ جانے کیوں خان صاحب اس زعم میں مبتلا میں ہیں کہ وبائی مرض کے خلاف وہ قوم کی ایمانی طاقت اور نوجوان آبادی کو بروئے کار لاکر شکست دے دیں گے۔ جزبہ ایمانی کا جائزہ لیں تو معلوم پڑتا ہے کہ خان صاحب کے اپنے پروں کے نیچے پروان چڑھنے والے رفقا کی بے ایمانیت کی تحقیقاتی رپوٹس کو تاریخ پر تاریخ دے کر تاریخ کے سپرد کردی گئی ہیں۔ اور نوجوانوں سے توقع رکھنے والے شاید بھول گئے ہیں کہ ان کہ اپنے نوجوان تو مخالفین کی ماں بہن ایک کرنے کے لئے سوشل میڈیا کے اگلے مورچوں میں صف آرا ہیں جن کو کسی صورت پیچھے ہٹایا نہیں جاسکتا  اور جو پیچھے رہ چکے ہیں وہ تبدیلی کے نام پر اپنی کچلی جانے والی امیدوں کے غم و غصہ میں اس حد تک متنفر ہو چکے ہیں کہ اب وہ اس طرح کی کسی بھی بانگ پر کان لپیٹ لیں گے۔ لبیک کہنے والوں کی کیا ریاست اتنے قلیل مدت میں تربیت کرسکتی ہے کہ وہ وبائی مرض کے درمیان خود کو محفوظ رکھتے ہوئے دوسروں کا ہاتھ تھام سکیں؟ خان صاحب شاید بھول رہے ہیں ان کے پاس وقت کی انتہائی قلت ہے، روز بروز حالات مزید گھمبیر ہوتے جارہے ہیں اور ملک و قوم کو اس وقت ان کے جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔

حالات شاید ابھی بھی اتنے نہیں بگڑے خان صاحب کو ادراک کرنا چاہیے کہ ان سے کہیں پر غلطیاں ہو رہی ہیں اور غلطیوں سے سیکھنا والا ہی ناکامی سے محفوظ رہتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ خان صاحب اپنی  انا کو ایک طرف رکھ کر اپوزیشن کے طرف ہاتھ بڑھائیں اور ملک کو اس بحرانی کیفیت سے باہر نکالنے کے لئے سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ اگر ان کو ایسے کرنے سے اپنے کچھ فیصلوں سے انحراف بھی کرنا پڑتا ہے تو وہ بھی کرلیں کیونکہ وہ خود فرما چکے ہیں کہ جو یوٹرن لینا نہیں جانتا، اس سے بڑا بیوقوف لیڈر کوئی نہیں ہوتا۔(رضوان عبدالرحمان عبداللہ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں