تحریر: ایاز امیر۔۔
سارے پتے ان کے ہاتھ میں تھے۔ عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہوگیا اور یہ وزیراعظم نہ رہے تو کیا ہوا تھا‘ باقی تو سب کچھ ان کے پاس تھا۔ پنجاب کی حکومت‘ خیبرپختونخوا کی حکمرانی‘آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان اورجو لائے گئے تھے اُن کی بدنامی۔مخالفین کی بدنامی بھی خان صاحب کا اثاثہ تھا۔ مزے میں اپوزیشن میں رہتے اور اپنا جو پسندیدہ مشغلہ تھا‘تقریریں فرمانا‘ اس سے لائے گئے ٹولے کے لتے لیتے رہتے۔ مقبولیت خان صاحب کی تھی اور عوامی گولہ باری شہبازشریف اور اُن کا رنگ برنگا ٹولہ سہتا۔اس سے زیادہ مزے کی پوزیشن کوئی ہونہیں سکتی تھی۔
لیکن یہ سب کچھ خان صاحب کو راس نہ آیا۔چوہدری پرویز الٰہی جیسے سیانے کھلاڑی سمجھاتے رہ گئے کہ پنجاب اور پختونخوا کی حکومتوں کو لات نہ ماریں لیکن پتا نہیں کس جنون میں ہمارے خان صاحب مبتلا تھے اور کس کی سُن رہے تھے کہ اپنے ہاتھ پیر خودہی کاٹ ڈالے۔ اپنے آپ کو تو مصیبت میں ڈالا لیکن اپنی پارٹی اور ورکروں کو بھی ایک خواہ مخواہ امتحان سے دوچار کردیا۔سیاست ہوتی ہے اقتدار کیلئے‘ اقتدار ہاتھ آئے تبھی آپ کچھ کر سکتے ہیں۔یہاں ہمارے انقلابی راہنما اقتدار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے تھے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔اب بتا رہے ہیں کہ مجھے تو سب کہہ رہے تھے کہ ملک میں عام انتخابات تبھی نزدیک آسکتے ہیں جب آپ اپنی صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کا خاطر خواہ بندوبست کریں۔یہ سارے کون تھے وہ تو خان صاحب جانیں لیکن اب معلوم ہوا کہ ان ساروں میں جنرل قمرجاوید باجوہ بھی تھے‘ جنہوں نے مبینہ طور پر خان صاحب کو یہ گولی کھلائی کہ اپنی صوبائی حکومتوں سے فراغت حاصل کریں۔یعنی بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی سے خان صاحب نے مشورہ لیا۔یہ تو ایسی بات ہے جس سے ہمارے سر چکرا گئے کہ ذہانت اور سمجھداری ہو تو اس بلند سطح کی۔مشورہ کرتے تو اپنوں سے کرتے‘ پرابلم یہاں یہ ہے کہ ہماری پسندیدہ جماعت‘ پاکستان تحریک انصاف‘ میں سیاسی سوجھ بوجھ کا کافی فقدان ہے۔سیاسی سوچ ڈھونڈے بھی مشکل سے ملتی ہے‘ پھر یہ بھی ہے کہ خان صاحب کسی کی سنتے نہیں۔اپنی مرضی کرتے ہیں۔یہ تو اچھی بات ہے لیکن محسنِ قوم باجوہ صاحب کا مشورہ پھر دل سے کیوں لگا لیا؟اُ ن کی بھی نہ سنتے لیکن جو زہرکی پھکی نہیں کھانی تھی وہ اُنہوں نے بخوشی قبول کرلی۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
آدھے سے زیادہ پاکستان کی حکمرانی آپ کی گود میں تھی۔عوام کی گالیاں اوروں کو پڑ رہی تھیں‘ آپ مقبولیت کی چوٹیوں پر پرواز کررہے تھے۔اتنی جلدی اور بے صبری کی کیا ضرورت تھی؟دلدل میں تو شہبازشریف وغیرہ پھنسے ہوئے تھے‘ آپ صورتحال کا مزہ لیتے‘ جنہیں میرجعفر اور میرصادق کا لقب دینا چاہتے تھے اُنہیں دیتے۔لیکن ایسا کرتے تو پھر خان صاحب تو نہ ہوتے۔مصیبت اُن سے کہیں دور پڑی تھی‘ لپکے اور ساری مصیبت اپنے گلے ڈال لی۔اب قوم کو بھاشن دے رہے ہیں آئین اور قانون کی بالادستی کا‘ یہ بھول کر کہ عشق اور جنگ میں نہ آئین کام آتا ہے نہ اخلاقیات نہ اصول پرستی۔ ہمارے پسندیدہ چیف جسٹس حکم دیے جا رہے ہیں لیکن وہ انگریزی کا محاورہ کیا ہے کہ گھوڑے کو پانی تک تو لے جاسکتے ہیں اُسے پانی پینے پر مجبور نہیں کرسکتے۔یہ نہیں کہ سپریم کورٹ میں نفاق کی جڑیں پھوٹی ہیں‘ یہ بات اہم نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم تب چلتا ہے جب با قی سارے ادارے اُس کے ساتھ ہوں۔سپریم کورٹ کے پاس قلم ہے مشین گنیں اور توپیں نہیں۔اگلے بات نہ مانیں‘ جیسے نہیں مان رہے‘ تو آپ کا قلم کس کام کا؟بھلے آپ کہتے رہیں کہ آئین کی پاسداری نہ کی گئی تو نتائج بڑے بھیانک ہوں گے۔جب ذوالفقار علی بھٹو کی قتل کے مقدمے میں سزائے موت کی اپیل سپریم کورٹ میں سنی جا رہی تھی تو وہ چار روز سپریم کورٹ سے مخاطب رہے۔اُنہوں نے بھی کہا کہ میرے ساتھ جو کیا جا رہا ہے اُس کے نتیجے میں قوم کو ایک سنگین آئینی بحران کا سامنا ہوگا۔بڑی خندہ پیشانی سے اُن کی باتیں سنی گئیں اور اُن کی اپیل 4/3 کی اکثریت سے رد کر دی گئی۔آئینی بحرانوں کے بھاشن سے جنرل ضیا الحق کی صحت پر کیا اثر پڑنا تھا۔وہ جانتے تھے جیسا کہ اب رانا ثنا اللہ جانتے ہیں کہ یا وہ ہے یا ہم ہیں۔ایسی کشمکش میں‘ جیسا کہ اس وقت پاکستان میں جاری ہے‘ فوقیت اپنے آپ کو دی جاتی ہے۔آئینی بحرانوں کا ذکر کمزور کرتے ہیں جن کے ہاتھ میں اور کچھ نہ ہو۔توخان صاحب آئے روزمحسنِ قوم باجوہ صاحب کا ذکر کیوں کرتے پھررہے ہیں؟انہوں نے جو کرنا تھا وہ کر گئے اور سنا ہے کہ اب اکثر دبئی کی سیروں پر رہتے ہیں۔اب جو کوا درخت سے اڑچکا اُسے غلیلیں مارنے سے کیا حاصل؟
اصولِ حکمرانی ہے کہ جس سیڑھی سے آپ اقتدار میں پہنچیں‘ اُسے ٹھوکر مارنے میں حکمت ہے۔یعنی جس سیڑھی سے آپ چڑھے ہوں وہ تو آپ کی کمزوری ہوئی‘ پہلی فرصت میں اُس کمزوری سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہی عافیت ہو سکتی ہے۔خان صاحب نے اُس سیڑھی کو جس کا نام جنرل باجوہ تھا اپنے سینے سے لگائے رکھا اور نہ صرف یہ بلکہ تین سال بعد اُس سیڑھی کو چمکا کر تھوڑا اور اوپر کردیا۔اقتدار میں آپ آئے تھے لیکن آپ کی سیڑھی آپ سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو گئی۔پھر آپ کو فارغ کرنے کا بندوبست ہوا‘ آپ فارغ ہو گئے لیکن آپ خوش قسمت اس لحاظ سے نکلے کہ فارغ ہوئے تو آپ کا اقبال اور بلند ہو گیا۔یعنی آپ کے ساتھ یہ معجزہ ہو گیا کہ اقتدار میں تھے تو اتنے مقبول نہ تھے‘ اقتدار سے فارغ کیے گئے تو مقبولیت کے کوہِ ہمالیہ پر چڑھ گئے۔یہ ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا‘ یہاں توجو اقتدار سے گیا‘ ہرچیز سے گیا۔اپنی خوش قسمتی کے صدقے دیتے‘ کسی مقدس در پر جاکر سربسجود ہوتے۔ اور فارغ بھی ہوئے تو اس انداز سے کہ مقبولیت کیساتھ ساتھ آدھے سے زیادہ پاکستان کی حکمرانی آپ کے دامن کے ساتھ جڑی رہی۔لیکن معلوم نہیں کون سا خبط آپ پہ سوارہوا کہ آپ نے تہیہ کرلیا کہ اس بھری جھولی کو خالی کرنا ہے۔دشمن آپ کی جھولی خالی نہ کرسکتے تھے۔پنجاب سے آپ کا اقتدار گیا تو چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ایسی صورتحال پیدا کی کہ وہ اقتدار آپ کی گود میں واپس لوٹ آیا۔لیکن کیا بے چین روح آپ نے پائی ہے کہ آپ کو چین نہ آیا‘ جھولی خالی کرنے میں ہی آپ نے بہتری سمجھی۔چوہدری پرویز الٰہی اور اُن جیسے گلے پھاڑتے رہ گئے‘ آپ نے ایک نہ مانی اور آدھے پاکستان سے زیادہ کی حکمرانی کا بھانڈا بیچ چوراہے توڑ دیا۔ اب آئین کا سبق پڑھتے رہیں‘ آپ کے کس کام یہ سبق آئے گا؟
پاکستانی تاریخ میں جہاں بہت سارے سوال ہیں وہاں یہ سوال بھی رہے گا کہ جنرل باجوہ میں عمران خان نے کیا دیکھا تھا۔تین سال چیف رہے تھے‘ مدت پوری ہوئی تو گھر جاتے لیکن خان صاحب نے نہ صرف توسیع سے نوازا بلکہ باقاعدہ قانون پاس کروایا کہ جو بھی اس مسند پر آئے گا توسیع کا حقدار ٹھہرے گا۔ہم جیسے سمجھ رہے تھے کہ خان میرٹ کا بڑا پاسبان ہوگا لیکن جب توسیع کا تاج اس محسنِ قوم کے سرپر پہنایا گیا توہم جیسے دم بخود رہ گئے۔اب وقت گزر چکا ہے لیکن باجوہ کے آسیب نے ان کے ذہن کو پکڑا ہوا ہے۔ باجوہ کا ذکر سُن سُن کر ہمارے کان پک چکے ہیں۔اب جانیں دیں اُسے اور آگے کی سوچیں۔بہت نقصان ہو چکا ہے۔یہ توآپ نے دیکھ لیا کہ زبردستی آپ الیکشن نہیں کرواسکتے‘ توپھر دیوار میں سرمارنے کا کیا فائدہ۔ اب بھی دوستوں کی مان لیں اور وقت کا انتظار کریں۔(بشکریہ دنیانیوز)