pia ko plots mein adjust kia jarha hai

خان پر ہاتھ ہولا رکھیں

تحریر: رؤف کلاسرا۔۔

پچھلے کچھ عرصے سے مجھے کچھ سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران بیرونِ ملک پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے امریکہ سے پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا‘‘ سے دعوت موصول ہوئی کہ وہاں ڈیلیس ٹیکساس میں ان کی تنظیم کا چار جولائی سے نو جولائی تک سالانہ فنکشن ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر ارشد ریحان صاحب نے میسج کیا تھاجو ہمارے پختون بھائی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی اس فنکشن میں شرکت کروں۔ بتانے لگے پاکستان سے دو اور صحافی بھی تشریف لا رہے ہیں۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار ڈاکٹرز اپنی فیملیز کے ساتھ اس فنکشن میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ریحان کی مہربانی کہ انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ امریکہ آنے کی دعوت دی۔ میں نے ڈاکٹر ارشد ریحان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے ذہن میں میرا نام آیا۔ اگرچہ ماضی میں بھی تین دفعہ ”اپنا‘‘ کے سالانہ فنکشن میں شرکت کی دعوت دی گئی بلکہ ایک دفعہ تو امریکہ میں مقیم قریبی دوستوں سے کہلوایا بھی گیا لیکن بوجہ سستی یا اپنی نالائقی ہر دفعہ معذرت کر لی۔

خیر اس دفعہ ڈاکٹر ریحان ارشد نے اتنی محبت سے دعوت دی کہ پہلی دفعہ سوچ میں پڑ گیا۔ بتانے لگے کہ اس سال اس فنکشن میں جس موضوع پر گفتگو ہونی ہے وہ پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدترین تقسیم اور عدم برداشت ہے ۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب! آپ ایک ڈیسنٹ اور سمجھدار انسان ہیں جو اس موضوع پر اپنے فنکشن میں گفتگو کرانا چاہ رہے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں ایک نیا ٹرینڈ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ سننے سے زیادہ سنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ کسی مقرر کو سنیں اور پھر آخر پر مہذب انداز میں سوالات کریں اور جوابات سے مطمئن نہ بھی ہوں تو مقرر کو اگنور کریں۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک دوست کو موبائل فون دے کر تیار رکھتے ہیں کہ وہ جب سوال کے نام پر مقرر کی بے عزتی کرنا شروع کرے گا تو اس کی وڈیو بنانی ہے جو بعد میں ٹویٹر اور فیس بک پر چڑھا کر لاکھوں ویوز لیے جاتے ہیں کہ دیکھا بڑا مقرر بنا پھرتا تھا‘ کیسے چھترول کر دی اور پھر سب کی بلے بلے اور واہ واہ۔

اب اگر ہمارے ان ڈاکٹر صاحبان نے پاکستان سے ہزاروں میل دور سے مقرر بلوا کر اپنی مرضی کی گفتگو ہی سننی ہے تو اتنے تکلف اور تکلیف کی کیا ضرورت ہے؟ اپنی ہی تنظیم کے چند اچھے اور پڑھے لکھے لوگوں سے ہی ایسے فنکشن میں اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں کے حق میں تقریر کرا لی جائے جس سے ان کا اکانومی کلاس کا دو تین لاکھ روپے کا ٹکٹ اور ہوٹل کا دو راتوں کا کرایہ بھی بچ جائے گا۔ جس موضوع پر بات کرنے کیلئے ”اپنا ‘‘ تنظیم مجھے یا دیگر صحافیوں کو امریکہ بلا رہی تھی وہاں تو خود بہت زیادہ تقسیم اور عدم برداشت دیکھنے میں آرہی ہے۔ اکثر کا خیال ہے کہ مقرر یا صحافی وہی اچھا ہے جو چیئرمین پی ٹی آئی کو پاکستان کا مسیحا بنا کر پیش کرنے کا فن جانتا ہو۔ اگر وہ سابق وزیراعظم کو اپنا دیوتا نہیں مانتا یا اس کی پوجا نہیں کرتا تو پھر اسے سننے پر وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے اکثر ڈاکٹرز خان سے سخت مایوس تھے‘ جب وہ وزیراعظم بنے اور ان کے نالائق اور کرپٹ وزیروں کی کہانیاں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ عثمان بزدار کے چوائس نے تو سب کا شوق پورا کر دیا تھا۔ باقی رہی سہی کسر ان کی بیگم‘ فرح خان‘ احسن جمیل گجر اور ندیم بابر کے کارناموں نے پوری کر دی تھی۔ پھر جو شہزاد اکبر کے حوالے سے انکشافات فیصل واوڈا نے کیے وہ بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھے۔ پھر زلفی بخاری نے شہزاد اکبر کے مزید سکینڈلز کھولے۔ اس سے پہلے شہزاد اکبر بھی اعظم خان کے ساتھ مل کر زلفی بخاری کے کارنامے سامنے لا چکے تھے جس کی وجہ سے زلفی بخاری سے وزارت سے استعفیٰ لیا گیا۔ یہ سب سابق وزیراعظم کے لاڈلے تھے جو وزیراعظم آفس میں بیٹھ کر ”باریک کام‘‘ کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ اکثر پاکستانی ملتے تو وہ کہتے خان پر ہاتھ ہولا رکھیں۔ وہ ابھی نئے نئے وزیراعظم بنے ہیں۔ میں انہیں کہتا تھا جناب اس وقت ہی خان پر سخت ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہاتھ ہولا رکھا گیا تو انہیں عادت پڑ جائے گی کہ میں جو غلط ٹھیک کرتا ہوں‘ وہی ٹھیک ہے‘ مجھے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ان کا حال گھر کے اس اکلوتے لاڈلے بچے والا ہو جائے گا جسے پورا گھرانہ پہلے دس بارہ سال لاڈ پیار میں بگاڑ دیتا ہے اور اس کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کرنے کے بعد اس کا دماغ خراب کر دیتا ہے۔ وہ بچہ جب بڑا ہو کر ضدی ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری کی جائے تو پھر سب کو فکر پڑ جاتی ہے کہ بچہ بگڑ گیا ہے‘ اب وہ کسی کی نہیں سنتا۔ وہی حال خان کا ہوا۔ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید بھی اس کام پر لگے ہوئے تھے‘ وہ صحافیوں کو بلا کر پہلے سمجھاتے تھے کہ خان پر ہاتھ ہولا رکھیں۔ جو نہیں رکھتے تھے انہیں عبرتناک مثال بھی بنایا جاتا تھا۔ ٹی وی چینلز کیساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا۔ اگر کوئی کسر رہ جاتی تھی تو وہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے تنخواہ دار ملازم پوری کر دیتے تھے۔

باجوہ صاحب نے مدتِ ملازمت میں توسیع لینی تھی اور فیض حمید صاحب نے 2022ء میں آرمی چیف بننا تھا لہٰذا ان کی کوشش تھی کہ خان پر ہاتھ ہولا رکھا جائے اور ان کے دور کی ہر نالائقی اور کرپشن کو چھپایا جائے تاکہ ان کا مقصد پورا ہونے تک چیئرمین پی ٹی آئی اتنا غیرمقبول نہ ہو جائیں کہ وہ مدتِ ملازمت میں توسیع یا کسی اعلیٰ عہدے پر تقرری کے قابل ہی نہ رہیں۔ ان دونوں شخصیات کو چیئرمین پی ٹی آئی سے ہمدردی نہیں تھی بلکہ اپنی فکر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مہر بخاری کے شو میں وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ عسکری قیادت بھی آخر عمران خان کی نیپیاں بدل بدل کر تھک گئی تھی۔

اب سوال یہ ہے اگر آپ نے ایسا لیڈر چن لیا ہے جو آپ کے خیال میں اس قابل نہیں کہ وہ میڈیا یا مخالفین کی تنقید کا سامنا کر پائے اور اسے ہر وقت کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو میڈیا اور ان کے ناقدین و مخالفین کو سمجھاتا رہے یا تھریٹ کرتا رہے کہ وہ اس لیڈر پر ہاتھ ہولا رکھیں تو بہتر ہے اپنا لیڈر بدل لیں۔ وہ صرف شیر کی کھال پہنے ہوئے ہے‘ اصلی شیر نہیں ہے۔ وہ برسوں ٹیپو سلطان کے گیڈر اور شیر کی زندگی بارے قول کا فرق تقریروں میں سمجھا سکتا ہے لیکن ٹیپو سلطان بننے کا وقت آئے گا تو سر پر بالٹی رکھ لے گا۔ اب بتائیں تو کیا ساڑھے تین سال تک سابق وزیراعظم پر ہاتھ ہولا رکھنے کے بعد بھی ان میں کوئی تبدیلی آئی یا ان کے دور میں کرپشن کم ہوئی یا مانیکا‘ بزدار‘ زلفی بخاری‘ شہزاد اکبر‘ احسن جمیل گجر یا بشریٰ صاحبہ نے بھی اپنا ہاتھ ہولا رکھا؟ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی پاکستان کے حالات پر فکر مند رہتے ہیں۔ ہمیں تو خیر اب عادت سی ہوگئی ہے۔ ہر بندہ ایک ہی بات کرے گا کہ پاکستان کا کیا بنے گا اور ساتھ ہی مجھے کہیں گے کہ آپ چیئرمین پی ٹی آئی پر ہاتھ ہولا رکھا کریں۔

میں آگے سے پوچھ لیتا ہوں کہ مجھے چھوڑیں‘ کیا انہوں نے خود کبھی ہاتھ ہولا رکھا؟ یا سارا ہاتھ ہولا رکھنے کا ذمہ ہم جیسے چند لوگوں کا ہے۔ اگرچہ ہمارا تو وہی حال ہے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ کیا لاڈلے کپتان کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ جس راہ پر چل پڑے ہیں‘ وہ نہ صرف اپنا نقصان کریں گے بلکہ اپنے ساتھ اپنی پارٹی اور ہزاروں ورکرز کو بھی لے ڈوبیں گے۔ جتنا بڑا جہاز ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ اتنے ہی مسافروں کا نقصان کرتا ہے۔ شکر ہے اس دیوانگی اور پاگل پن کے دور میں اب بھی خان کے چندسمجھدار حامی لوگ موجود ہیں‘ جو سمجھتے ہیں کہ خان نے خود کو تباہ کر لیا اور اسے ملال بھی نہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں