آج کی پاکستانی سیاست بھی اسی لڑائی جھگڑے اور غصے میں گھری ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مکمل سیاسی ڈیڈ لاک ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی ہے جو 9مئی کے واقعے پر معافی مانگنے اور اس سےبرات کا اعلان کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف مقتدرہ ہے جو 9مئی کے زخم بھلانے کو تیار نہیں۔ اگر دونوں فریقوں میں لچک نہیں ہے تو ظاہر ہے ڈیڈ لاک بڑھتا رہیگا۔ روزنامہ جنگ میں تحریر اپنے تازہ کالم میں سینئر صحافی و کالم نویس سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ۔۔میری ذاتی رائے تو شروع سے یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو تشدد کی سیاست کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور اگر اس حوالے سے کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے یہ نہیں کیا مگر وہ ایک مقبول سیاسی جماعت ہے اسے نظر انداز کرنا اور مین سٹریم سے نیچے اتارنا بھی ملکی مفادمیں نہیں ہوگا۔سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ اس ڈیڈ لاک یا سیاسی بحران کی چابی صرف اور صرف پارلیمان ہے۔ پارلیمان میں حکومت اور تحریک انصاف دونوں موجود ہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں ایجنڈے اور دوسرے معاملات کو چلانے کیلئے روزانہ ایک دوسرے سے ملنا پڑتا ہے، پارلیمان کو پلیٹ فارم بناکر مذاکرات کا آغاز کیا جائے، تحریک انصاف کو الیکشن پر جو شکایات ہیں اس کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جاسکتی ہے، تحریک انصاف نے جن نشستوں پر الیکشن کمیشن میں اعتراضات دائر کر رکھے ہیں انہی نشستوں پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، ہو سکے تو مولانا فضل الرحمٰن کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جائے تاکہ یہ معاملہ تسلی بخش طریقے سے طے ہو سکے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ کھلاڑی سیاستدان نے اپنی جدوجہد کیلئے محمود خان اچکزئی کو آگے لگایا ہے تو انہیں میڈیا، عدلیہ اور اپوزیشن کیساتھ کی گئی زیادتیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہئے۔ ان کے دور میں میڈیا کو معاشی طور پر مفلوج کیا گیا، ہر تنقید کرنے والے صحافی کی ٹرولنگ کی گئی، خواتین تک کو گندی گالیاں دی گئیں، آج وہی سارے صحافی عمران کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر تحریک انصاف کو ابھی تک توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے ماضی کی غلطیوں پر معافی مانگے اور خود پر ہونے والی تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی کرے۔ حالت یہ ہے کہ ادھر کوئی اینکر یا صحافی ایک فقرہ بھی تحریک انصاف کے خلاف کہہ دے تو وہ لفافی بن جاتا ہے اور ادھر آپ ان کی تعریف کریں تو زیرو سے ہیرو بنا دیئے جاتے ہیں۔ یہ رویہ جمہوری نہیں بلکہ فاشسٹ ہے ۔ تحریک انصاف اب مشکل دور سے گزر رہی ہے تو نہ صرف کھلاڑی رہنما کو جمہوری اصولوں کو اپنانا چاہیے بلکہ اپنے اندھے عقیدتمندوں کو بھی سکھانا چاہیےکہ جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔آخر میں مقتدرہ سے گزارش ہے کہ 9مئی میں ملوث افراد کو ضرور سزا دیں مگر کروڑوں ووٹ لینے والی جماعت کے ساتھ اپنا رویہ مختلف رکھیں۔ آگ لگانے والے سزا کے مستحق ہیں مگر ووٹ لینے والے تو انتخابی عمل کے تحت جیت کر آئے ہیں انہیں قبول کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ دل بڑا کرکے غلطیوں کی معافی کی گنجائش بھی نکالنی چاہیے۔ جس کسی نے سازش کی ہے یا آگ لگائی ہے اسے عبرت کا نشان بنائیں، سادہ لوح عقیدت مندوں کو انکی بے وقوفی کی سزا بھی دیں مگر یہ خیال کریں کہ وہ منصوبہ بندی سے بے خبر مارے گئے ہیں