سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے آل پارٹی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس کا سربراہ مونالا فضل الرحمان کو بنایا جائے جو دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرے، عمران خان کو الیکشن کے بعد اب سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے، انہیں بنی گالہ میں نظر بند کر کے مذاکرات کیئے جائیں۔سینئر صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے کہا کہ حامد میر درست کہہ رہے ہیں کہ آصف زرداری کے صدر منتخب ہونے پر بظاہر کشیدگی ختم ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے ، میری تجویز ہے کہ بہترین فورم پارلیمنٹ ہے ، اس مسئلے کا حل بڑی آسانی سے ہو سکتاہے ، آل پارٹی پارلیمانی کمیٹی بنے اور دھاندلی کی تحقیقات کی جائیں، مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم میں بھی رہے ہیں اور وہ تحریک انصاف کیلئے بھی قابل قبول ہیں، ان کو پارلیمانی کمیٹی کا چیئر مین بنایا جائے اور جس میں ساری پارٹیوں کی نمائندگی ہو اور وہ دھاندلی کی تحقیقات کریں۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے بھی یہ حل قابل قبول ہوگا، اگر سپریم کورٹ میں جاتے ہیں اور پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ آجاتاہے تو وہ ان کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا، اگر پارلیمنٹ میں ساری جماعتیں مل کر فیصلہ کر لیں کہ جس جس جگہ تحریک انصاف کی پٹیشن دائر ہوئی ہے ان حلقوں کی تحقیقات کرلیں،اور پارلیمانی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچے کہ ان حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے تو پھر شہبازشریف کوسٹیپ ڈاون کرنا چاہیے اور اگرثابت ہوتاہے کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر تحریک انصاف کو اس سیٹ اپ کو قبول کرنا چاہیے۔ان کا کہناتھا کہ یہ ایک قابل عمل حل ہے ،اس کے علاوہ اور کوئی حل نظر نہیں آتا ، فروری کے الیکشن کے بعدعمران خان کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے،عمران خان کو بنی گالہ میں نظر بند کر کے ان سے مقتدرہ اور سیاسی جماعتیں بھی مذاکرات کریں۔سیہالہ میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی قومی لیڈرز کو نظر بند کر کے مذاکرات کیئے تھے لیکن مارشل لاء لگ گیا ورنہ وہ مذاکرات کامیاب ہونے والے تھے ۔مجھے نہیں لگتا کہ مقتدرہ کی تحریک انساف کے بارے میں سوچ تبدیل ہوئی ہے ، کور کمانڈر کے اعلامیے سے بھی یہی ظاہرہو تاہے ، عمران خان سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی نو مئی کی ذمہ دار نہیں ہے ، جب تک کوئی ایک لچک نہیں دکھائے گا اس وقت بات چیت نہیں ہو سکتی ۔
خان کو سیاست کی اجازت دی جائے، سہیل وڑائچ۔۔
Facebook Comments