عمران خان کو جس انداز میں ایک کے بعد ایک کیس میں گزشتہ دنوں میں سزائیں سنائی گئیں اس نے انصاف کے نظام پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ ان مقدمات کو جلدی میں نمٹانے کی وجہ سے فیصلوں میں ایسی کمیاں، کسریں رہ گئی ہیں جس کا فائدہ مجرموں کو اپیل کے مو قع پر ہو سکتا ہے۔لیکن عمران خان کو اصل خطرہ کیا ہے ؟ اس حوالے سے سینئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔تازہ کالم میں انصار عباسی لکھتے ہیں کہ عمران خان کو جس انداز میں ایک کے بعد ایک کیس میں گزشتہ دنوں میں سزائیں سنائی گئیں اس نے انصاف کے نظام پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیئے۔ ایسا نہیں کہ ان مقدمات میں جان نہیں تھی۔ سوال اس بات پر اُٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان اور دوسرے ملزمان ان مقدمات کو لٹکانے کے لیے مختلف حیلے بہانے کرتے رہے لیکن اس کے باوجود متعلقہ عدالتوں نے ایک کے بعد ایک، 3 مقدمات میں چار پانچ دنوں کے اندر اندر فیصلے دیئے جن میں ملزمان کو سخت سزائیں سنائی گئیں۔ اس سے تاثر یہ ملا کہ جیسے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ان 3 مقدمات میں فیصلے ہر حال میں انتخابات سے پہلے آنے چاہئیں۔ ابھی تک عمران خان کے ساتھ بشریٰ بی بی اور شاہ محمود قریشی ملزمان سے سزا یافتہ مجرم بن چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کیسوں کو جلدی میں نمٹانے کی وجہ سے ان مقدمات کے فیصلوں میں ایسی کمیاں، کسریں رہ گئی ہیں جس کا فائدہ مجرموں کو اپیل کے مو قع پر ہو سکتا ہے۔ انصار عباسی نے مزید لکھا کہ آگے کیا ہوگا، کب ہوگا اس کا تو فیصلہ وقت ہی کرے گا لیکن ان سزاؤں کی بنیاد پر عمران خان کے لیے جیل میں کم از کم ایک ڈیڑھ سال گزارنا لازم نظر آتا ہے۔ کب ان فیصلوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں سنی جاتی ہیں، یہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور چند مہینوں میں کم از کم نظر نہیں آتا۔ ابھی تو عمران خان کے لیے اور بہت مشکلات ہیں۔