تحریر: فہیم صدیقی۔۔
کچھ دوستوں کا مسئلہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی پل چین نہیں آتا کچھ کرو تو انہیں پرابلم کچھ نہ کرو تو انہیں پرابلم انہیں صرف اپنا آپ نظر آتا ہے۔ اگر انہیں فائدہ پہنچے تو انہیں کسی چیز پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور اگر ایسا نہیں ہو تو پھر ان کا مسئلہ اس ساس جیسا ہوتا ہے کہ وہ بہو پر اس بات پر بھی معترض ہوتی ہیں کہ وہ “آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے”
ان کی باتوں کا جواب دینا وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے لیکن جواب نہ دو تو کہتے ہیں کہ جواب بھی نہیں دیتے تو سب سے پہلے شور اس بات پر کہ ان کے گھر والوں کو لے جاتے ہوئے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں پوچھ گچھ کے لیے کہاں لے جایا جارہا ہے پاکستان میں رائج قوانین کے تحت یہ جاننا ان کے لواحقین کا بنیادی حق ہے تو جناب شور اس بات پر کہ کسی بھی شہری کو اس طرح لے جانا غیرقانونی عمل ہے
کہتے ہیں لاعلمی بھی ایک نعمت ہوتی ہے اور کم علمی ایک لعنت جناب عالی طے یہ ہوا تھا کہ کسی صحافی سے اگر کسی معاملے میں تفتیش کی ضرورت ہوگی تو صحافی تنظیموں اور پریس کلب کو بتایا جائے گا تو شور اس لیے کہ وارث رضا ہوں یا علی عمران انہیں اس طرح لے جانا مزاج یار پر بہت زیادہ گراں گزرا کیونکہ دونوں معاملات میں اس معاہدے پر عمل نہیں ہوا
تشدد صرف جسمانی نہیں ہوتا وارث رضا کو نفسیاتی دباو میں رکھا گیا ان کے چہرے پر ہمہ وقت پٹی بندھی رہی اور تقریبا 7 مختلف افراد نے ان سے ان کے کالم اور ان کی سوشل میڈیا پوسٹس سے متعلق انہیں انتہائی دباو میں لے کر کئی گھنٹوں تک سوالات کیے جو غیر قانونی اور غیراخلافی عمل ہے اس لیے شور کیا
وارث رضا الحمداللہ خیریت سے گھر آگئے لیکن انہیں لے جانے والے اپنے غیرقانونی عمل پر قابل گرفت ہیں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں آنا چاہیے اس لیے ہم شور کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے
یہ شور اس وقت اس لیے ہورہا ہے کہ وارث رضا کو اغوا کیا گیا اور انہیں 14 گھنٹے غیرقانونی طور پر نامعلوم مقام پر رکھا گیا رہی بات انہیں نوکری سے نکالنے کے وقت کی تو یہ وارث رضا ہی بتائیں گے کہ اس وقت کے یو جے نے ان کے کیس میں کیا کیا تھا اور اگر وہ بوجوہ نہ بتاسکے تو پھر وہ تحریری ثبوت یہاں پیش کردیے جائیں گے
بالکل نہیں ہم صحافی قانون سے ذرا بھی بالاتر نہیں اور ہم کسی اور کو بھی قانون سے بالاتر نہیں بننے دینا چاہتے ہم بدمعاش نہیں ہیں اور نا کسی اور کو بدمعاش بننے دیں گے۔ ہم بالکل قانون کے تابع ہیں اور چاہتے ہیں کہ باقی ہر ادارہ اور اس سے تعلق رکھنے والا ہر فرد بھی قانون کا تابع ہو۔ بالکل نہیں اگر کسی یونین لیڈر کے ذاتی جرائم ہیں تو اس پر قانون کو حرکت میں آنا چاہیے جو ایک کالم یا سوشل میڈیا پوسٹ پر صحافی کو اٹھا کر لے جانے کی طاقت رکھتے ہیں وہ ذاتی جرائم پر حرکت میں کیوں نہیں آتے
جن پر زمینوں پر قبضے کے الزامات ہیں اور جو نام نہاد لیڈرز لڑکیاں چھیڑنے پر زیر تفتیش رہے ہیں اس کا جواب وہی دیں گے اور ان سے جواب لیجیے گا ضرور
اگر کوئی صحافی دانستہ یا نادانستہ کسی پاکستان مخالف بیانیے کا علمبردار یا کسی کا “آلہ کار” (اعلی کار نہیں) بنتا ہے تو اس کیخلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے پاکستان میں رائج قوانین کا استعمال ہونا چاہیے، اٹھا کر لاپتہ کردینا کسی طرح قابل قبول نہیں
رہی بات وارث رضا کو جاننے کی تو جانتا تو میں بھی انہیں طویل عرصے سے ہوں اور بطور دوست بطور ساتھی مجھے یہ اختیار ہے کہ وہ جب مشکل میں ہوں تو یہ جانوں کہ ان کی مشکل کیا ہے اور ان کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر کھڑا ہوں اگر میرا یہ جرم ہے تو میں یہ جرم اس وقت بھی کروں گا جب خدا نہ کرے ایسا کچھ آپ کے ساتھ ہوا کیونکہ ادائیں تو آپ کی بھی قاتل ہیں
اب آخری اور نکتہ ور بات جو یقینا آپ جیسے تمام دوستوں سے میں بہت عرصے سے کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ میڈیا مالکان سے میڈیا ورکرز کے ساتھ جاری ناانصافیوں کا حساب کیوں نہیں مانگا جاتا تو ذرا وہ تمام دوست جو صحافی تنظیموں کو چراغ کا جن سمجھتے ہیں کہ چراغ رگڑا اور جن حاضر جو ان کے تمام مسائل کو پلک جھپکتے میں حل کردے ۔ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیے گا اور پھر بتائیے گا کہ دو سال پہلے جب میڈیا ہاوسز کے خلاف تمام صحافی تنظیموں نے مل کر جدوجہد شروع کی اور اس کا آغاز جنگ گروپ سے کیا اور پھر ڈان اخبار، ڈان نیوز، آج ٹی وی، نوائے وقت، بول ٹی وی کیپیٹل ٹی وی اور گورنر ہاوس کے باہر احتجاج کیا پریس کلب میں مستقل احتجاجی کیمپ لگایا تو اس میں کتنے وہ دوست شریک ہوتے تھے جو ہر وقت صحافی تنظیموں پر نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں یا اس کے بعد جب بھی کوئی احتجاج کیا تو وہ کتنا شریک ہوئے ہر مظاہرے میں ہماری تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی تھی اور ایک وقت وہ آگیا تھا کہ احتجاج کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی تھی کہ ایسے مظاہروں کی تصاویر اور ویڈیوز جب مالکان دیکھیں گے تو انہیں کس قدر خوشی اور اطمینان ہوگا
دوستوں ٹریڈ یونین بندے اور چندے پر چلتی ہے نہ بندے آتے ہیں نا چندہ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہوجائیں میرے محترم قلم طراز دوست کی بھی ایسے احتجاج میں غیرحاضری کا طویل ریکارڈ ہے ہاں میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں ان کے حق میں نظم پڑھنے کے لیے ضرور آئے تھے
ہم میڈیا مالکان سے ان کی ناانصافیوں کا حساب مانگتے رہیں گے چاہے پلٹ کر دیکھنے پر خود کو تنہا پا کر اپنے ہی “پر” کیوں نہ جل جائیں،،(فہیم صدیقی)۔