khairsh ka khadsha

خارش کا خرخشہ ۔۔۔۔ ( طنز و مزاح ) 

تحریر: سید عارف مصطفیٰ

اس میں کیا شک ہے کہ شرافت کے قرینے سے کیئے جاسکنے والے اکثر ہی کام زیادہ تسکین بخش نہیں ہوتے لیکن خارش ان سے قطعی مستثنیٰ ہے ۔۔ کل عالم انسانیت تو کیا دنیائے حیوانیت بھی اس کے نرغے میں ہے آپنے بارہا گائے بیل اور انسانوں کو یکساں انداز میں کھجاتے دیکھا تو ہوگا- اس کا ایک خاص توصیفی پہلو یہ ہے کہ سبھی اس سے نجات پانا چاہتے ہیں مگر مزہ بھی سبھی لیتے ہیں۔

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ وہ چار چیزیں جنہیں مفت کا سرور دینے کی خصوصی توفیق بخشی گئی ہے ان میں پہلی تو نیند ہے اور دوسری خارش ہے جبکہ تیسری اور چوتھی چیز بھی خارش ہے۔۔۔ ان میں اعضائے رئیسہ کی خارش کا مقام بلند تر ہے جو کہ گاہے رئیسانہ نشاط سے  ہمکنار کرجاتی ہےکہ اس میں دست درازی کا رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔۔ یوں تو خارش بدنی سائنس کا عمل ہے لیکن اچانک بھری محفل میں اسکی نوبت آجائے تو پھر پوشیدگی کے خاص اہتمام اور حصول تسکین کے مقاصد کو بیک وقت ممکن بناسکنے کی جدوجہد ،  اس کا رتبہ خصوصی آرٹ سے جاملاتی ہے۔۔

عام تجربے کی بات ہے کہ جو کام بار بار کیا جائے تو اس کا کیف پھیکا پڑھ جاتا ہے ، اچھے سے اچھا کھانا ہو کے گانا، ہمیشہ و مسلسل لطف نہیں دےپاتا مگر یہ عجب خاصیت بھی فقط خارش ہی کو ودیعت ہوئی ہے کہ ہر بار پہلے سے بڑھ کے مزہ ملتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ خارش ہی وہ واحد طولانی کام ہے جو ہر بار پہلے سے بڑھ کے دلجمعی سے کیا جاتا ہے ۔۔۔ دیکھا جائے تو خارش ایک طرح کی ورزش بھی ہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی دھر رگڑا ہے اور وہ بھی انتھک ، وافر و مسلسل ۔۔۔

بلاشبہ یہ خارش ہی ہے جو کسی کو خوش نصیبی اور بدنصیبی کے ذائقے بیک وقت چکھا سکتی ہے کیونکہ کھچا کھچ بھری بس میں کھڑا اور پھنسا مسافر اس وقت خود کو بیحد بدنصیب شمار کرسکتا ہے کہ جب اسے یکبارگی خارش ًمحسوس ہواور اسکے لیئے کھل کھیلنا ممکن نہ ہو اور بالیقین اس موقع پہ اسے بس سے باہر نظر آتا ہر وہ شخص بیحد خوش نصیب لگے گا کہ جو حسب منشاء اپنے ہر جسمانی مقام پہ باآسانی اور باافراط کھجلا سکتا ہو

یوسفی کہتے ہیں کہ مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم دیر سے نکلتا ہے ۔۔۔ لیکن اس میں کیا شک ہے کہ سوجانے کے بعد دونوں ہی  ایک پیج پہ آجاتے ہیں کیونکہ نہ آنکھ چلتی ہے اور نہ ہی زبان  ۔۔۔ جو شے چلتی ہے وہ ہے سانس یا خارش کے لیئے چلتے ہاتھ ۔۔ یوں یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ بعد از تنفس  خارش بھی زندگی کا اک بڑا ثبوت ہے کیونکہ مردے خارش نہیں کرتے۔۔۔

 جمالیاتی سطح پہ ویسے تو خارش  ‘فنون کثیفہ’ کا ناگزیر جزو ہے جس میں جمائی، انگڑائی، ناک سنکنا اور چھینک بھی شامل ہیں اور اسکا توسیعی مرحلہ خراٹے ہیں، لیکن آپ جب کسی کو خارش کرتا دیکھیں تو عین وہی سکون اس کے چہرے پہ براجمان پائیں گے جو کہ فنون لطیفہ کے کسی تخلیق کار کے چہرے پہ تخلیقی عمل کے دوران دیکھا جاسکتا ہے اور ہلکی ہلکی خارش کے لیئے ہولے ہولے انگلیاں چلانے کا عمل تو ستار کے انگ چھیڑنے جیسا نشاط انگیز ہے۔

خارش کسی قائدے ضابطے، ٹائم لائن اور پیمائش سے مبرا ہوتی ہے کبھی بھی ہوسکتی ہے اور کتنی بھی ہوسکتی ہے اور کسی مقام پہ بھی ہوسکتی ہے البتہ جو مقام جس قدر پرائیویٹ ہے اسے پبلک کی تؤجہ میں لانے میں اسی قدر زیادہ التفات برتتی ہے

وقتی طور پہ ہی سہی، لیکن یہ خارش ہی ہے جوتؤجہ کو اداسی و بیزاری سے ہٹاسکتی ہے ۔۔۔ کوئی مایوس و ناراض فرد جس کے رویئے سے کبھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ اب اسکی کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہی ، تب ذرا دیر بعد ہی اسے اچانک کسی قریبی دروازے کے پلے یا چوکھٹ کی طرف لپکتا دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ اپنی پیٹھ اس سے لگاکے کچھ دیر دائیں بائیں اوپر نیچے پیہم ہلتا جلتا پایا جائےگا اور پھر کچھ ہی دیر میں دفعتا وہ بہت ہشاش بشاش سا دکھنے لگےگا- اور دنیا میں انکا پھر سے دل لگتا محسوس ہونےلگےگا ۔۔۔ محض خارش کرپانے کی نعمت کے بل پہ یہ اتنا بڑا بدلاؤ صرف خارش ہی سے ممکن ہے۔

پورے وثوق سے عرض ہے کہ دنیا خواہ کتنی بھی ترقی کرلے ، برصغیر میں جسم کھجانے کا تسلی بخش آلہ ہمیشہ کنگھا اور دروازہ ہی رہے گا

دنیا میں خارش کہیں کہیں کھجلی بھی کہلاتی ہے مگر یہ اسے مزید ذلیل کرنے کی ایک لسانی کوشش ہوا کرتی ہے اور اسی لیئے اسے نچلے طبقے  کے کھاتے میں ڈالا جاتاہے جبکہ خارش مڈل کلاس کے حصے میں آئی ہے اس سے اوپر کے طبقے میں اسی علت کو اسکن الرجی کا غلاف اوڑھایا جاتا ہے – خارش بالعموم 3 قسم کی ہوتی ہے ضرورتاً ، عادتاً یا مصلحتاً ۔۔۔ضرورت کے طور پہ خارش کرنےوالے عموما” بروقت اور ہڑبڑا کے یہ کام طوعاؐ و کرہا کرتے ہیں ۔۔۔ بعد میں ان میں سے چند اس کے رسیا بن جاتے ہیں اوربعد ازاں عادتاؐ خارش کرتے رہتے ہیں اور پھردیوانہ وار کرتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔ البتہ مصلحت والی خارش  بالعموم دفتری اور ازدواجی میکنزم کا حصہ ہے جو دراصل خفیہ پیغام یا کوڈ ورڈ لیئے ہوتی ہے،پہلے میں نجات اوردوسرے میں قرب کا اشارہ مستوراور مرؤج ہے۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ خارش کی سائنسی توجیہ اور تاریخ جاننے میں کسی کی ذرا دلچسپی نہیں ، محض کھجانے میں ہے۔۔۔ عام طور پہ بس یہی جانتے ہیں کسی خارش زدہ کو محض لمحہ بھروارفتگی سے کھجلاتے دیکھنے ہی سے یہ یکایک محسوس ہونے لگتی ہے – انسانی جسم میں نرم ترین خارش کا مقام سر ہے کہ جس کا الزم صرف جوؤں کے سرجاتا ہے حالانکہ بڑی ذمہ داری انہیں پالنے پوسنے والے کی ہے جبکہ شدید تر خارش وہ ہے جس سے دیوانہ وارکھجانے والےکےمقام خارش پہ اوردیکھنے والے کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے- تاہم ایک قسم کی خارش اور بھی ہے جو کے شدید ترین کے درجے میں آتی ہے اور یہ  دراصل کسی اچھے برے کام پہ پوری شدت سے اکسانےکا عمل ہے ۔۔۔ صاحبو، یقین کیجیئے میں نے خارش پہ یہ اچھا یا برا مضمون اسی خارش سے مغلوب ہوکے لکھا ہے۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں