zindagi pari hai abhi

“خبر نویس، کُفر نویسی سے بچیں”

تحریر: شکیل احمد بازغ۔۔

ٹیلیویژن پر کمرشلز کو غور سے دیکھا جائے تو دراصل عالمی مصنوعات کے کمرشلز اشیاء کی آڑ میں اغیار اپنا کلچر بیچتے ہیں۔ کمرشلز کے نام پر دانستہ کسی بھی معاشرے کے مجموعی نظریات کو نہایت سرعت سے تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ تو وہ کام ہے جو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت ہوتا ہے۔ ادھر نیوز چینلز میں خبریت کی آڑ میں دانستہ یا نا دانستہ اس قسم کے الفاظ یا فقرات استعمال کیئے جاتے ہیں جن کا نہ تو سر ہوتا ہے اور نہ پاؤں محض خبر میں کرارا پن شامل کرنے کیلئے فقرات اور جملے جڑ دیئے جاتے ہیں۔ اردو ادب کے اساتذہ کے کشید کردہ جملوں پر اب شاید اکتفا نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اپنی سخُن کی شوخی کو بڑھاوا دینے یا ثابت کرنے کیلئے محیرالعقول قسم کی باتیں خبروں کے بیچ و بیچ کر دی جاتی ہیں۔ یہ کام اکثر ہیڈ لائنز یا پیکج/رپورٹ میں رنگ بھرنے کیلئے ہوتا ہے۔ اور اکثر تو دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ فرطِ جذبات میں عقل سے ماورا کفریہ کلمات و جملے خبر کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ جس کی چنداں ضرورت نہیں۔ جیسا کہ ” قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی” بھئی 98 فیصد سے زیادہ مسلمانوں والے ملک میں دیوی دیوتاؤن کو کون پوجتا ہے۔ یا کیوں آپ نادانستہ لوگوں کا ذہن اللہ سے دیوی دیوتاؤں جیسی جھوٹی باتوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ پھر کوئی لکھ دیتا ہے۔ “سورج کو کراچی والوں پر رحم آ گیا”۔ بھئی سورج اللہ کی ایک مخلوق ہے جو اپنے مدار سے ایک انچ ادھر ادھر خود نہیں ہو سکتا نہ اپنی تمازت زمین پر حکم سے زیادہ یا کم ڈال سکتا ہے۔ کیا یہ فقرہ شمس پرستی یا آتش پرستی کی تبلیغ نہیں؟ مزید دیکھئے کہ ” ان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں”، مطلب آپ برخلافِ حقیقت فرشتوں(کراما” کاتبین) کو لاعلم مانتے ہیں۔ کیسی جاہلوں والی بے مغز بات ہے۔

خبر نویس غیر شعوری طور پر اپنی خبر کو چودہ پندرہ چاند لگانے کے زعم میں غیر ضروری اضافت کیساتھ خب پیش کرنے کی کوشش میں کفر پھیلانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ جبکہ وہ جانتے ہیں کہ عام عوام ٹی وی کو بہرحال سند مانتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ٹی وی چینلز بند ہو جائیں۔ بھلے زمانوں میں پی ٹی وی اردو زبان کیساتھ اسلامی شعائر کا بھی محافظ مانا جاتا تھا۔ ہماری عمر کے لوگوں کی تربیت پی ٹی وی نے اچھے سے کی تھی۔ لیکن جونہی نجی ٹی وی چینلز کو ہر قماش کے نظریات اور اردو تباہ کرنے کا لائسنس دیا گیا تب سے ہر شخص قلم کو چاقو چھری مانتے ہوئے اٹھا کر اردو کے بخیئے ادھیڑنے پہ تُلا ہے۔ خبر میں اگر دیگر زبانوں خصوصا’ انگریزی زبان کے الفاظ کو بھی اردوا لیا گیا ہے۔ جس سے مجھے تو کم از کم اس حد تک اختلاف ہے کہ اگر آپ کو اردو لفظ نہ ملے تو آپ انگریزی کا لفظ اردو فقرے میں شامل کر لیں۔ جیسے علامہ محمد اقبال نے کیا کہ ” ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا”، لیکن جب لفظ اساتذہ اردو میں موجود ہے۔ تو ٹیچروں کا احتجاج لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔  میری ایک بار ہمارے ایک نیوز روم کے دوست سے اس پر بحث ہو گئی۔ کہ انہوں نے اردو لفظ کے ہوتے ہوئے انگریزی لفظ کو دانستہ فقرے میں گھُسیڑ دیا۔ کافی بحث کے بعد میں نے ایک قطعہ انہیں لکھ بھیجا۔ جس پر ان کا پارہ بھی معتدل ہوا اور انہوں نے میری بات سے اتفاق بھی کیا۔ قطعہ حاضر خدمت ہے

ستم اردو پہ ڈھایا جا رہا ہے

سبھی کُچھ اردوایا جا رہا ہے

تو پھر کیا ایپلوں (Apples کی پیٹیاں ہوں

غلط ہے جو پڑھایا جا رہا ہے

کل میرا بچہ مجھے کہے گا کہ سیبوں کے بجائے ایپلوں لفظ اس لئے درست ہے کہ ٹٰیچروں بھی ٹی وی کی زبان میں مستعمل ہے۔

آج کل ایک نئی شے مشاہدے میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وہ ہے مخاطب کیساتھ نون غنہ کی اضافت، جیسا کہ پاکستانیو کو پاکستانیوں لکھا جا رہا ہے۔ اے میرے بہادرو کو اے میرے بہادروں۔ بھئی اردو کیساتھ یہ حرکتیں کون اور کیوں کر رہا ہے۔ کوئی ہمیں بھی تو بتائے۔ پھر ان غیر محسوس تبدیلیوں کی بغیر تحقیق اندھی تقلید بھی کی جا رہی ہے۔

بھارت کے مشہور غزل گائیک جب کراچی آئے تو انہوں نے مہدی حسن صاحب سے کہا کہ حضور آپ کی وہ غزل میں نے بھی گائی ہے۔ تو جوابا” مہدی حسن صاحب نے سوال جڑ دیا۔ کہ کیوں میاں میں نے صحیح نہیں گائی تھی۔

اساتذہ کو پڑھے سیکھے بغیر کوئی بڑی “استادی” تو ہو سکتی ہے۔ قابلیت نہیں۔ کہتے ہیں CREATIVITY IS BEING ORIGINAL

خبر نویسوں سے میری دست بستہ گذارش ہے کہ اگر اپنا مطالعہ وسیع کر کے اردو ادب کے ماہرین اساتذہ کے مستعمل الفاظ و جملوں کو اپنی خبر میں شامل کر لیں تو آپ کی خبر یقین کریں ناظرین پہ اپنا بہتر اثر چھوڑ سکتی ہے۔ اساتذہ کو پڑھے بغیر آپ نئی اصطلاحات کو ایجاد کرنے کے شوق میں بے نقاب ہوں گے۔ میں جب بحور سیکھ رہا تھا تو مستعمل بحروں کے بجائے اوائل میں نئی بحر کشید کرنے کا شوق مجھے ہونے لگا۔ تو اردو کے میرے استاد صاحب نے فرمایا کہ آپ نئی بحریں اس لئے ایجاد کرنا چاہ رہےہیں کہ آپ مستعمل بحروں کو سیکھنا نہیں چاہتے یا ان سے ناواقف ہیں۔ مستعمل بحریں اساتذہ کی ریاضتوں کا نتیجہ ہیں۔ پہلے ان جیسا علم تو حاصل کریں۔

عرض یہ ہے کہ خبر بیچیں لاشعوری میں اغیار کے نظریات و عقائد کی تبلیغ کرنے کا آپ کو حق نہیں۔ جن ترقی پسند لکھاریوں نے کفریہ ادب کی ترویج کی ہے۔ ان سے تو ہم پہلے ہی بہت نالاں ہیں۔ لیکن آپ تو سوچیں کہ آپ کے ہر لفظ کا عوام کے ذہنوں پر اثر ہوتا ہے۔ اور آپ کے ہر لفظ کی تاثیر اور نتیجے کا جواب بھی آپ سے روز محشر ہوگا۔ اب چند نا عاقبت اندیش یہ بھی کہہ گزریں گے۔ کہ اب خبر میں اسلامی شعائر کی بات کرنا احمقانہ روش ہے۔ تو عرض مکرر یہی ہے کہ مشق سخن کو بھی کفر سے پاک کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔ کہ آپ لوگوں کے نظریات بدل کر جہالت پہ انہیں قائل و مائل کرنے کا بوجھ برداشت کر نہیں پائیں گے۔ میزان میں ہر لمحے ہر حرف کا حساب ہونا ہے۔واللہ اعلم۔۔(شکیل احمد بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں