تحریر: ناصر جمال۔۔
وزیراعظم نے کہا تھا، ملک کے لئے کپڑے بھی بیچنا پڑے تو ، دریغ نہیں کروں گا۔ صرف پندرہ ماہ میں ، ان کی بجائے عوام اپنے کپڑے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایئرپورٹس سے لیکر سی پورٹس تک’’پیش‘‘ کی جارہی ہیں۔ اسے محبوب وزیر خزانہ’’آئوٹ سورس‘‘ کہتے ہیں۔ اس جواب پر ’’ذاتی اینکر‘‘ بھی ہنسی قابو نہیں کرپائے۔
مجھے تو منگل کے روز مُفتا، اسماعیل کی نیم سرکاری ٹی۔ وی، جیو، نیوز پر گفتگو سن کر ہنسی آرہی تھی۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ ’’آج، اُن کا ضمیر چُھٹی پر ہے۔
حکومت، جنگ اور جیو نیوز، ڈالر کی نئی قیمت پر جو دعوے کررہے ہیں۔ ان کا حقائق کی دنیا میں وجود ہی نہیں ہے۔ میڈیا کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ ذاتی خواہشات پر ’’خبریں‘‘ تخلیق ہورہی ہیں۔ حالات یہاں تک آگئے ہیں کہ اخبارات اور ٹی۔ وی نیوز کی پہنچ ایک فیصد لوگوں تک بھی نہیں ہے۔ 99 فیصد سے بھی زائد لوگ، انھیں معتبر ہی نہیں سمجھتے۔
آئی۔ ایس۔ پی۔ آر اور آقائوں کو ’’مثبت‘‘ رپورٹنگ کے ”مثبت نتائج“ مبارک ہوں۔ خطے میں توازن بگڑا تو، ابھی سے سوچ لیں۔ قوم کسی کی بات پر اعتبار نہیں کرے گی۔
آپ نے اپنے سمیت سب کی کریڈبیلٹی تباہ کر دی ہے۔ نو مئی کو تو چھوڑیں۔ اب تو لوگ 65ء 71ء ، کارگل پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ،عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا جیسے ستون کو کھوکھلا کرنے کے بعد، ملبہ بھی آپ ہی نے اٹھانا ہے۔ پھر سے کوئی ذوالفقار علی بھٹو جیسا قربانی کا بکرا، مت لے آئیے گا۔ ویسے، بدقسمتی سے، مارکیٹ میں اب کوئی ایسا، نسلی اور عقلی بکرا، دستیاب بھی نہیں ہے۔
آپ کو ’’ذہنی معذور‘‘ لانے کا جو شوق تھا۔ اُسے پورا کیجئے۔ مگر کیا کجیئے۔ ریاست چلانا، اب، آپ اور اُن کے بس کی بات نہیں۔
گذشتہ پانچ سالوں میں، آپ نے دو ذہنی معذوروں کا بطور خاص تجربہ کیا ہے۔ اب، اُس کے ثمرات بھی سمیٹیں۔
آئی۔ ایم۔ ایف معاہدہ، صرف، وینٹی لیٹر پر، مریض کے آنکھیں کھولنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انور مقصود نے کیا خوب کہا ہے کہ
’’آئی۔ ایم۔ ایف کے قرض پر بھنگڑے بنتے ہیں۔ کیونکہ اس کو کھانا، حکمرانوں اور اتارنا عوام نے ہے۔‘‘
پاکستان، جس غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس سے نکلنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بڑی قربانی درکار ہے۔ عوام سے تو’’قربانی‘‘ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حل، ’’پریکٹیکل‘‘ ہوناچاہئے۔ سسٹم پر قابض کم از کم بیس ہزار لوگوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ انھیں گھروں پر بٹھانا ہوگا۔ جبکہ نچلی سطح پر لاکھوں کی قربانی چاہیئے ہے۔ حکومت کا سائز چھوٹا مگر متحرک کرنا ہوگا۔ ریاست کو پالیسی کم از کم پچیس سال کے لئے لانا ہوگا۔ قانونی سقم ختم کرنے ہونگے۔ معزز منصفوں سے معذرت کرتے ہوئے۔ نیا ڈھانچہ بنانا ہوگا۔ بیورو کریسی کا رائج نظام، اس ملک کو کچھ نہیں دے سکتا۔ ہمیں اپنی افرادی قوت کو تربیت یافتہ بنانا ہوگا۔ تحصیل کو ماڈل تحصیل بنانا ہوگا۔ پانچ سو تحصیل ہیں تو، وہاں پر جرمنی کی طرز پر ایک ایک منرطکی مکمل انڈسٹری بنانا ہوگی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت، ہر سبسڈی، گیس اور بجلی چوری کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ طاقتور صنعتکاروں اور تاجروں کی چوری اور مفت گیس کی عیاشیاں زیرو کرنا ہونگی۔ اپنا ’’انرجی مکس‘‘ نہ صرف بہتر کرنا ہوگا۔ بلکہ تمام بجلی کے کارخانوں کا فوری ’’ہیٹنگ آڈٹ‘‘ کرنا ہوگا۔ بجلی اور گیس سے ٹیکسز ختم کرکے، نیا نظام لانا ہوگا۔ ہر چیز کی خریداری کی الیکٹرونک رسید ہوگی۔ جو ہر شہری کے اکائونٹ میں اسی وقت آن لائن جائے گی۔ اصل مسئلہ انڈر انوائسنگ ہے۔ لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس تو کسی بھی چیز کا مستند ڈیٹا ہی نہیں ہے۔
صنعت کار، ڈسٹی بیورٹر، انڈر انوائسنگ کررہا ہے۔ پورٹ پر کسٹم سے لیکر پروڈکٹ کے مارکیٹ میں آنے اور صارف تک جانے میں حکومت اور صارف کی بجائی جارہی ہے۔
عید قربان پر میڈیا چلاتا رہا کہ اتنے لاکھ جانور ذبح ہوئے ہیں۔ ہزار سو تک تعداد بتائی جارہی تھی۔ میرا تو ہنس، ہنس کر، بُرا حال تھا۔ ڈیٹا کا ذریعہ کیا ہے۔۔۔؟
سب کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔ یہ ہمارے حالات ہیں۔ آج ہمارا ڈیٹا کا سب سے بڑا سورس، پٹواری اور نام نہاد میڈیا ہے۔
پورے ملک میں سرکار کی گاڑیوں کی تعداد کا بھی ٹھیک ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ آپ ہی بتائیں، وزیروں کو کیوں سرکاری گاڑی دی جائے۔ اس طرح سےافسران اوراسٹاف کو بھی کیوں، انھیں گھر، گاڑی چاہئے تو ’’اسلامک مارگیج‘‘ کے تحت دیں۔ ملازمت، کنٹریکٹ یا مدت پر اقساط بنائیں۔ پلان دیں۔ کیا مسئلہ ہے۔
ملک میں سڑکیں، پُل، سب کے سب بی۔ او۔ او۔ ٹی پر لیکر جائیں۔ اتنے بڑے، این۔ ایچ۔ اے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر بھائی لوگ اجازت دیں تو ایم۔ ون، ایم۔ ٹواور باقی موٹرویز کا کیوں آڈٹ نہ کروا لیا جائے۔ تمام کمپیوٹرائزڈ خود کار ٹول پلازے بنا دیئے جائیں۔ انسانی مداخلت صفر ہو۔ جس نے موٹروے پر آنا ہے وہ، پہلے چارج کروائے۔ صرف ایک سے تین مہینے کا ڈیٹا، پوٹینشل اور پُول، سب کچھ کھول دے گا۔
پاکستان میں مینوفیکچرنگ کے عالمی معیارات متعارف کروائیں۔ آٹو موبیل اور دوسرے مینوفیکچرز کی بلیک میلنگ کے سامنے ڈٹ جائیں۔آپ نے صنعت لگانی ہے۔ بجلی، گیس، پانی، کی سو فیصد گارنٹی ہو۔ صنعتیں انڈسٹریل زونز میں منتقل کریں۔ اشیا کو ویلیو ایڈ کی طرف لیکر جائیں۔ پیکنگ، پیکجنگ کو عالمی معیارات پر لیکر جائیں۔ زراعت پر توجہ دیں۔ یہاں پر چین، یورپ، امریکہ، سے ٹیکنالوجی کی بات کریں۔ زرعی تحقیق کے جعلی ادارے بند کرکے، یہاں جدید نظام متعارف کروائیں۔ زرعی تحقیق پرائیویٹ شعبے کو دیں۔ وہ اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان، ٹنڈو جام کی بجائے، فیلڈ میں جاکر اپنا کام کریں۔ ایسے بے شمار ادارے اس ملک پر بوجھ ہیں اور عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ اسٹیل مل پر نیا انڈسٹریل زون بنائیں۔ چھوٹی اسٹیل ملز پرائیویٹ شعبے کو لگانے دیں۔
سرکاری دامادوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ 49 فیصد حصص خود رکھ کر ادارے پرائیوٹائز کردیئے جائیں۔ جہاں پوٹینشل صفر ہوچکا ہے۔ وہاں کسی اور طرح سے ٹریٹ کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ٹائی ٹینک، ختم کرکے، جدید تیز رفتار بوٹس میں تبدیل کئے جائیں۔
نالی، سڑک، پُلی، گیس، بجلی کنکشن سے سیاست کو نکالیں، پالیسی میکنگ پر بات کریں۔ سرکاری رہائش گاہیں۔ فوری طور پر ختم کر دی جائیں۔ بڑے،بڑے سرکاری دفتروں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ حکومت روزگار دینے کی مشین نہیں ہے۔
روزگار پرائیویٹ شعبہ دے۔ اس کی نگرانی ضروری ہے۔ مغرب کی طرح ملازمین کا تحفظ، بہت ضروری ہے۔ پولیس اور بلدیات کا نظام، مقامی ہوناچاہئے۔ ان کی ٹریننگ اچھی ہونی چاہئے۔ واچ اینڈ وارڈ اور انوسٹی گیشن مکمل طور پر الگ ہونے چاہئیں۔ یہ تھانہ سسٹم کا ظالمانہ نظام ختم ہونا چاہئے۔ ریلوے پر بطور خاص توجہ دی جائے۔ ابھی ریلوے صرف چار فیصد فریٹ اٹھاتی ہے۔ اسے کم از کم 80 فیصد ہونا چاہئے۔ ریلوے کا جدید ترین نظام بی۔ او۔ او ۔ٹی (تعمیر، آپریٹ، ملکیت، اور ٹرانسفر)کے تحت بنانا، کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
اس ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر طرف مافیاز ہیں۔ ٹرانسپورٹر مافیا، سیمنٹ، شوگر، پراپرٹی، فوڈ، کس، کس کارٹل کا لکھیں۔ ملک اور ریاست بچانا اور چلانا ہے تو قانون کی حکمرانی کرنا ہوگی۔ ملک چھڑیوں، ڈنڈوں، انڈوں سے نہیں ’’عدل‘‘ سے چلتے ہیں۔ آپ 76 سال سے تباہی کے راستے پر ہو۔ ایک بار ’’عدل‘‘ والا راستہ بھی تو ٹرائی کرکے دیکھو۔۔۔۔ ایک بار تو اللہ اور رسولﷺ کی بھی مان کر دیکھو۔(ناصر جمال)